آپ نہ چاہیں تو کیا کرے کوئی....

منگل 6 اکتوبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

مملکت پاکستان کو معرض وجود میں آئے تہتر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا. بدقسمتی سے ابھی تک نہ صرف پاکستان کا سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے بلکہ عوام بھی شدید قسم کے تذبذب کا شکار ہیں. عوام کی اکثریت اس سیاسی نظام سے نالاں ہیں کیونکہ اس بوسیدہ نظام کی بدولت عوام کے مسائل پر حقیقی معنوں میں آج تک توجہ ہی نہیں دی گئی.

ہمارا موجودہ سیاسی نظام عوام کی امنگوں کا ترجمان ہی نہیں ہے. اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام کسی بھی حوالے سے عوام دوست نہیں ہے تو یہ بیجا نہ ہو گا. پاکستان کا سیاسی نظام دراصل اشرافیہ کا نظام بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں عام آدمی کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے اور جو صرف مخصوص طبقے کو سپورٹ کرتا ہے.

(جاری ہے)

پارلیمنٹ کے اندر اگر ہم دیکھیں تو چند ایک خاندان ہیں جو نسل در نسل عوام پر حکومت کر رہے ہیں.

انتخابات میں حصہ لینا عام عوام کے بس کی بات ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارا سسٹم متوسط طبقے کو سپورٹ ہی نہیں کرتا. چین ایشیا کی ایک ابھرتی ہؤئی معاشی طاقت ہے اور مستقبل کی سپر پاور بھی ہے. ماؤزے تنگ کو جدید چین کا بانی کہا جاتا جس نے چین کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بنیاد رکھی. پاکستان کے نظام سیاست جیسے فرسودہ نظام کی موجودگی میں اگر ہم ایک چھوڑ کر ایک سو ماؤزے تنگ بھی لے آئیں تو بھی ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا موجودہ نظام سیاست دراصل کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی کیخلاف پھرپور مزاحمت کرتا ہے.

سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنی انتخابی مہم کے دوران اس نظام میں تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد وہ اسی نظام سیاست کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں. دوسری طرف اگر ہم انتخابات کی بات کریں تو آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، سوائے ایک آدھ کے، وہ تمام متنازعہ ہی رہے ہیں. اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ ہم تہتر برس میں صرف انتخابات کا ایک مضبوط و مربوط شفاف نظام ہی وضع نہیں کر سکے کہ غیر جانبدارانہ انتخابات کا بندوبست کیا جا سکے.

بلدیاتی نظام نہ صرف ایک آئینی تقاضا ہے بلکہ ایک ایسا سسٹم ہے کہ جس سے ہیومن ڈیولپمنٹ کیساتھ ساتھ عوام کو با اختیار بنانے سے ان کے اندر ایک احساس زمہ داری پیدا ہوتا ہے. لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں ہمیشہ لعیت و لعل سے کام لیا گیا اور تمام سیاسی جماعتیں کبھی بھی بلدیاتی اداروں کے حق میں نہیں رہیں. دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی حکومت آتی ہے وہ سوشل کنٹریکٹ کی نگہبان ہوتی ہے.

عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جسے سوشل کنٹریکٹ یا عمرانی معاہدہ کا نام دیا گیا ہے. پاکستان کے اندر یہ معاہدہ بہت کمزور ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے پورے سسٹم کیخلاف ایک بداعتمادی کی فضا نظر آتی ہے. کوئی بھی حکومت اس ریاست کے اندر بسنے والی عوام کے حقوق کی امین اور محافظ ہوا کرتی ہے. ملکی معیشت کی بہتری عوام دوست حکومتی پالیسیوں سے مشروط ہے.

دنیا بھر کی ترقی پذیر ریاستیں ہیومن ڈیولپمنٹ کے ذریعے ہی ترقی یافتہ کہلائی ہیں. انھوں نے لوگوں کی صحت کے مسائل کو اولین ترجیح دی، عوام الناس کی تعلیم پر خرچ کیا پھر کہیں جا کر ترقی کی. براعظم ایشیا میں موجود ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے. انھی ممالک نے ترقی کی جنہوں نے ہیومن ڈیولپمنٹ یعنی عوام کی تعلیم اور صحت پر کام کیا. جنہوں نے ان دو سیکٹرز کو نظرانداز کیا وہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں.

بدقسمتی سے پاکستان بھی ان نظرانداز کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے. یہاں جو بھی حکومت آئی عوامی مسائل ان کی ترجیح ہی نہیں رہے. کہنے کو ہم ایک فلاحی ریاست ہیں لیکن عوامی فلاح و بہبود پر حقیقی معنوں میں کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی. عوام اپنے بیشتر بنیادی آئینی حقوق سے آج بھی محروم ہے. آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی بات کی جائے تو اس میں واضح طور پر درج ہے کہ بنیادی تعلیم ہر بچے کا حق ہے، کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ہو گا اور ریاست پاکستان اس کی ذمہ دار ہے لیکن آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے.

ریاست ایسا بندوبست کرنے میں ناکام رہی ہے کہ یہ سارے بچے سکول کے اندر جا سکیں. تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے. حتیٰ کہ بہت سے لوگ تو ووٹ کاسٹ کرنے ہی نہیں جاتے. ماضی کے تمام انتخابات کا ٹرن آؤٹ نکال کر دیکھ لیجئے، آپ کو اس سسٹم میں عوام کی دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا.

اس ملک کا اصل مسئلہ بوسیدہ سیاسی نظام ہے جو تبدیلی کیخلاف ہمیشہ مزاحمت کرتا ہے. جو بھی اس نظام میں تبدیلی کا نعرہ لیکر آیا وہ اسی نظام کا حصہ بن کر رہ گیا. کیونکہ ہماری سیاسی سمت ہی درست نہیں ہے. ہمیں اپنی سمت کا درست تعین کرنے کی ضرورت ہے. نظام تعلیم کا ازسرنو جائزہ لے کر سیاسی شعور کی بیداری کے متعلق مواد کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے.

شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا درست طریقہ کار تشکیل دینے کیساتھ ساتھ عوام کو ووٹ کی طاقت کا شعور دلانے کی ضرورت ہے. جس دن عوام کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ انکا ووٹ محض ایک کاغذ کا پرزہ نہیں ہے بلکہ اس ایک ووٹ کے ذریعے وہ اگلے پانچ سال کیلئے اپنے ملک و ملت کے مقدر کا فیصلہ کر رہے ہیں سمجھ لیجئے کہ اس دن آپ نے اپنی درست سمت کا تعین کر لیا. عوام کو تعلیم اور سیاسی شعور دئیے بغیر اس نظام میں تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے اور مملکت پاکستان کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :