اے رب کہاں جائیں تیرے یہ پریشان بندے.....

بدھ 21 اکتوبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

کچھ عرصہ قبل ایک دوست کے بھائی کی دعوت ولیمہ کی تقریب میں جانا ہوا. ہال کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک کونے میں ایک ٹیبل تھا جہاں ایک صاحب تشریف فرما تھے انکے ساتھ کچھ کرسیاں خالی تھیں. میں نے ان صاحب کیساتھ مصافحہ کیا اور وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا. ان صاحب نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا. وہ بڑے پریشان دکھائی دے رہے تھے.

بار بار اپنے سر، ہاتھوں اور ٹانگوں کو پوری شدت سے کُھجا رہے تھے. خیر میرے بعد آنے والے لوگوں میں کئی لوگ انکے رشتہ دار بھی تھے. انکے رشتہ داروں میں سے کچھ لوگ انکے ساتھ بڑے کراہت آمیز روئے سے ملے. حتیٰ کہ ایک صاحب نے بس دور سے ہی سلام کیا، حال پوچھا اور آگے چل دیا. میں یہ تمام معاملہ بڑے غور سے دیکھتا رہا.

(جاری ہے)

ان صاحب نے میری حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا کہ اس وجہ سے میں کسی فنکشن وغیرہ پر نہیں جاتا کہ ایک تو یہ بیماری میرے لئے پریشانی کا باعث ہے اور دوسرا کچھ لوگوں کا رویہ اس سے بھی ذیادہ تشویشناک ہے.

میں ان صاحب کی پریشانی اور بیماری دونوں کو سمجھ چکا تھا. کیونکہ اسی بیماری کے مریض میری اپنی فیملی میں بھی موجود ہیں اور میرے دفتر میں بھی کئی دوست ہیں. میں بہت عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ ایسے لوگوں کیلئے کچھ لکھوں. مجھے بخوبی معلوم ہے کہ سورائسس کے مریض کس قدر پریشانی سے دوچار رہتے ہیں. یہ بیماری بذات خود کوئی اتنی بڑی پریشانی نہیں ہے جتنا اردگرد موجود لوگوں کے روئیے مریض کو پریشان کرتے رہتے ہیں.

میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ اگر کسی بچے کو سورائسس کا مرض ہو تو سکول، کالج یا یونیورسٹی میں کئی دوسرے ہم جماعت اس کیساتھ بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں. سورائسس ایک جلدی بیماری ہے جو میڈیکل سائنس کے مطابق جنیٹک اور آٹو امیون بیماریوں کی فہرست میں آتی ہے. آٹو امیون بیماری دراصل ایسی بیماری ہوتی ہے کہ جس کا تعلق ہمارے مدافعتی نظام سے ہے.  ہر روز ہمارا جسم ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں وائرس، فنگس اور بیکٹیریاز سے نبردازما ہوتا ہے، انکے ساتھ لڑتا ہے.

یہ ہمارے جسم کا مدافعتی نظام ہے جو ان بیکٹیریاز، فنگس اور وائرسز کو شکست دیتا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہم اپنے معمول کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں. ہمارے جسم کا مدافعتی نظام دراصل ہمارے جسم کی فوج ہے جو ہر محاذ پر ہر وقت ان بیکٹیریاز، وائرسز اور فنگس وغیرہ کیخلاف لڑنے میں مصروف ہے. ہماری جلد اس مدافعتی نظام کا بہت بڑا اور اہم حصہ ہے.

نظام قدرت کے تحت ہماری جلد کے سیلز بنتے اور ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں اور یہ عمل تادم آخر جاری و ساری رہتا ہے. اب سورائسس میں کیا ہوتا ہے کہ ہمارے مدافعتی نظام میں معمولی سا بگاڑ پیدا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ غلط سگنل چلے جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے جلد کے یہ سیلز بننے اور ٹوٹنے کے عمل میں بے ترتیبی آ جاتی ہے اور سیلز معمول سے زیادہ تیزی سے بننا شروع ہو جاتے ہیں.

بس اسی بیماری کو سورائسس کا نام دیا جاتا ہے. ماہرین آج تک اس بیماری کی اصل وجہ کا پتہ نہیں لگا سکے البتہ یہ بات طے ہے کہ سورائسس ایک جنیٹک بیماری یے کہ بعض دفعہ یہ والدین کی طرف سے کسی شخص کو ملتی ہے اور اکثر بغیر کسی وجہ کے ہو جاتی ہے. اگر کسی شخص میں پہلے سے اس کے جینز موجود ہوں تو سگریٹ نوشی، شراب نوشی، موٹاپا، شوگر، ہائی بلڈ پریشر، بعض ادویات اور سٹریس کی وجہ سے یہ بیماری ایکٹو ہو جاتی ہے.

بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے ماہرین نے سورائسس کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا  ہے. اس میں جلد کے مختلف حصوں پر مچھلی کی طرح کی چمکدار سی تہہ بن جاتی ہے جس پر خارش کرنے سے وہ خشکی کی طرح اترتی ہے اور اس میں سے مواد سا نکلتا ہے. یہ بیماری انسان کی زندگی کیساتھ چلتی ہے. اگر کنٹرول میں رہے تو بعض اوقات کئی کئی سال تک مریض بالکل ٹھیک رہتا ہے اور بعض مریضوں میں اکثر یہ بیماری اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود رہتی ہے.

بعض لوگ اسے جلد کا کینسر کہتے ہیں حالانکہ یہ جلد کا کینسر ہرگز نہیں ہے. سورائسس ایک الگ بیماری ہے جس کا کینسر کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی سورائسس کبھی کینسر میں تبدیل ہوتی ہے، سورائسس ہمیشہ سورائسس ہی رہتا ہے البتہ اس کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے. ویسے بھی پاکستان میں جلد کا کینسر بہت ہی کم پایا جاتا ہے. جلد کا کینسر گوروں میں سب سے ذیادہ ہوتا ہے.

ہم پاکستانی بہت خوش قسمت ہیں کہ ہماری جلد کا رنگ گندمی مائل ہے. گندمی مائل جلد کینسر کے خلاف بہت بڑی ڈھال ہے. سورائسس کوئی جان لیوا مرض نہیں ہے اس کے مریض بھی نارمل لوگوں کے جتنی ہی زندگی گزارتے ہیں البتہ یہ تکلیف کی وجہ سے زندگی کو تھوڑا مشکل ضرور بنا دیتا ہے. بعض لوگ سورائسس کا مکمل علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن میڈیکل سائنس کے مطابق سورائسس کا مکمل علاج تو نہیں ہے البتہ اس کا بہترین کنٹرول موجود ہے جس میں ادویات اور عذائی پرہیز شامل ہے.

سٹریس اس بیماری کی شدت میں اضافہ کرتا ہے جس وجہ سے سٹریس مینجمنٹ بہت ضروری ہے. ماہر امراض جلد سورائسس مریضوں میں سٹریس مینجمنٹ میں بھی بہترین رہنمائی کرتے ہیں. سورائسس کے مریضوں کو شروع میں ہر مہینے بعد ازاں ہر تین ماہ بعد باقاعدگی کیساتھ ڈاکٹر سے مشورہ کرتے رہنا چاہیے. بہت سے مریض بہترین علاج کیساتھ سال ہا سال بالکل ٹھیک رہتے ہیں.

اگر آپ کسی حکیم یا ہومیوپیتھی ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں البتہ طبیب کو مستند اور تجربہ کار ہونا چاہیے ورنہ یہ مرض مزید شدت اختیار کر سکتا ہے.
میں جب بعض لوگوں کا سورائسس کے مریضوں کیساتھ برتاؤ دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تشویش ہوتی ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی اچھوت کی بیماری نہیں ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو ہو جائے.

سورائسس کے مریضوں کیساتھ نفرت مت کیجئے، یہ بھی شوگر، بلڈ پریشر کی طرح کی ہی ایک بیماری ہے. سورائسس کے مریض کیساتھ رہنے، ملنے، کھانے پینے سے یہ بیماری ہرگز نہیں ہوتی بلکہ سورائسس کے مریض بھی ڈاکٹر کے مشورے سے اپنا خون عطیہ کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے پہلے ایک مخصوص بلڈ ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے. سورائسس کے مریضوں کو آپ کے پیار، ہمدردی اور اچھے برتاؤ کی ضرورت ہے. یہ مرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف اس بیماری سے آگاہی کیلئے مہم چلائی جائے بلکہ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے اندر ہفتے میں ایک دن مخصوص کیا جائے جس سورائسس کلینک کا انعقاد کرکے سورائسس کے مریضوں کا علاج کرنے کیساتھ ساتھ انکی کونسلنگ بھی کی جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :