مے ڈے کال اور زندگی

ہفتہ 10 اگست 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 ہم زندگی کو نجانے ہزاروں سال کا تحفہ مان لیتے اور ہمیشہ اس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جہد میں رہتے اور زندگی ایسی بے وفا چیز ہے کہ پلک جھپکتے میں کیا سے کیا ہوجاتا اور سب فنا ہوجاتا۔ اگر ہم میں سے ہر کسی کو اپنی موت کے وقت کا تعین ہوجائے تو یہ تمام نفسا نفسی اور جہد بس یہیں رک جائے، ہم میں سے ہر کوئی بس اپنی زندگی کے لمحوں کا ہی تعین کرے ،اتنی ہی محنت کرے اور اس دنیا سے چلا جائے، مگر یہ فیصلے قدرت کے پاس ہیں اور شاید اسی پر دنیا کا نظام قائم ہے۔

کالم لکھنے کی نیت سے رات کے آخری پہر میں نے گھر بالکونی کا رخ کیا، موسم بارش کے بعد سرد تھا اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
 میری آنکھوں کے سامنے سات آٹھ منٹ میں ایسا منظر نقش ہوا کہ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا سو اس منظر کے بعد کالم تحریر کرنے کے لیے کوئی اور موضوع ذہن کے دریچوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

اتفاق سے میں نے دو دن پہلے ہی May Day Call کی تاریخ پڑھی تھی۔ یہ الفاظ 1921 ء میں لندن میں Croydon ائیرپورٹ پر فریڈریک نامی ایک ریڈیو ٹاور کے افسر نے شدید ایمرجنسی یا مدد کی صورت میں بلانے کے لیے باقائدہ ریڈیو رابطوں کا حصہ بنائے تھے۔9 مئی 1980ء کو MV Summit Venture نامی جاپانی بحری جہاز امریکی ریاست فلوریڈا کی آبنائے تامپا میں معروف Sunshine Skyway پل سے ٹکرایا تھا، اس سے یہ جہاز اور پل مکمل تباہ ہوگئے تھے، مگر اس بحری جہاز کے ٹکرانے سے پہلے ایک آواز امر ہوگئی۔

 اس جہاز کے کپتان نے مے ڈے کال یعنی مدد کے لیے سگنل چھوڑا تھا، وہ پوری ریکارڈنگ آج بھی محفوظ ہے ،اور اسی کو بنیاد بنا کر فریڈرک نے بعد میں ریڈیو ٹاور سگنل میں مے ڈے کال کے الفاظ کو کسی بھی ناگہانی صورت حال کے لیے پہلا پیغام دینے کے لیے امر کردیا۔اس لیے کبھی بھی آپ کو کسی ہوائی جہاز کا حادثے کے بعد بلیک باکس مل جائے تو آپ کو مے ڈے کال کی آواز سب سے پہلے سنائی دیتی ہے۔

رات گہری تھی ، سوچوں کا عجیب سا محور تھا، کبھی کالم کے لیے کچھ خیالات دماغ میں اکٹھے کرنے لگتا تو کام کی جگہ کا سٹریس حاوی ہوجاتا، کبھی کسی مریض کا کیس دماغ میں اٹک جاتا ،کبھی پڑھائی کی ٹینشن ہونے لگتی، کبھی مہنگائی اور کبھی ملکی حالات کی۔ ایسے میں کالے آسمان میں ایک طیارہ بہت نیچی پرواز کرتا نظر آیا۔ یہ عین میرے گھر کے اوپر سے گزرا اور اس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔

یہ ملک کے دارلخلافہ کا انتہائی پوش علاقہ تھا اور رات کے اس پہر طیارے کی اتنی نیچی پرواز اور اس میں سے دھواں نکلنا ،یہ سب حیران کن تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے طیارہ دریائے سواں کے اوپر گزرا اور پھر سامنے رہائشی کالونی سے ملحقہ گاؤں کی آبادی پر چکر سے لگانے لگا۔ یہ اسلام آباد بحریہ ٹاؤن فیز 7 سے ملحقہ گاؤں موڑہ کلو تھا۔ جہاز آہستہ آہستہ اس گاؤں کی جانب بڑھتا گیا، پھر ایک دم کسی میزائیل کی سی تیزی سے نیچے اترا اور پھر ایک دم اندھیری رات میں بہت تیز آگ اور روشنی بلند ہوئی اور بہت سا دھواں اٹھنے لگا۔

میری آنکھوں کے سامنے جہاز کریش ہو گیا تھا۔ میں نے فوری اہلیہ کو اٹھایا اور ہم دونوں نے رہائیشی سیکیورٹی کو فون کیا، معلوم ہوا کہ قریبی گاؤں میں طیارہ گرا ہے۔
 طیارہ گرنے سے 7 منٹ پہلے مے ڈے کال دی جاچکی تھی۔ اس لیے علاقے کی ریسکیو ٹیمیں اور تمام سیکیورٹی عملہ روانہ ہوچکا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے جو منظر میری آنکھوں میں قید ہوا تھا اس کی مزید تفصیلات سوشل میڈیا پر آنے لگیں۔

جب طیارے کے ایک انجن سے دھواں نکل رہا تھا تو وہ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھورہے تھے۔ مے ڈے کال ملتے ہی آرمی ریسکیو کی ٹیمز متحرک ہوگئیں، طیارے کی ممکنہ کریش لینڈنگ کی جگہ کو مارک کرلیا گیا۔دونوں پائلٹس لیفٹیننٹ کرنل ثاقب اور لیفٹیننٹ کرنل وسیم انتہائی تربیت یافتہ اور ہر طرح کے حالات سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے. پائلٹس نے طیارے کا رخ آبادی سے موڑ کر ویرانے کی جانب کردیا، رفتار کم کرنے کے لئے انجن آف کر دیئے گئے تاہم انجنز سے نکلنے والا دھواں آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔

 
یہ آرمی ایوی ایشن کا FL-766 بیچ کرافٹ کنگ ایئر 350 طیارہ تھا جو عموماً رسد پہنچانے، سگنل کیرئیر، مانیٹرنگ، ایمبیرگو مومنٹس اور شورش زدہ علاقوں میں پھنسے افراد کو بچانے کے آپریشنز میں استعمال کیا جاتا ہے۔حادثے سے 3 منٹ پہلے دونوں پائلٹس طیارے پر سے مکمل کنٹرول کھو چکے تھے آگ طیارے میں پھیل چکی تھی یہ وہ وقت تھا جب جہاز سے ایجیکٹ کیا جاسکتا تھا یعنی طیارے کے عملے میں موجود پانچ افراد نکل سکتے تھے۔

مگر سات ہزار کلو کا طیارہ تین سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اگر آبادی پہ گر جاتا تو یہ کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر سکون کی نیند سوئی سینکڑوں زندگیاں ایک لمحے کے اندر جلی ہوئی لاشوں میں تبدیل ہو جاتیں اور بحریہ ٹاون فیز سیون کا پوش علاقہ جنگ سے تباہ حال شہر کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔
 پاک فوج کے جانباز پائلیٹس اس نقصان سے آگاہ تھے وہ آخری لمحے تک طیارے میں رہے ، اسکی رفتار کو کم کرنے اور طیارے کو آبادی سے جتنا ہوسکے دور لے جانے کی کوشش میں رہے۔

آگ کی لپٹوں میں جلتا طیارہ، جب موڑہ کلو نامی دیہات میں گرا اس وقت جہاز عمودی سمت میں نیچے آرہا تھا، کیونکہ بڑی تباہی سے بچنے کے لئے یہ وہ آخری حربہ تھا جو پائلٹس نے آزمایا کہ آخری لمحوں جہاز کو سلائیڈ لینڈنگ کروانے کے بجائے اسکا رْخ زمین کی جانب موڑ دیا تاکہ طیارہ گرنے سے محدود علاقہ اسکی زد میں آئے۔ جس جگہ طیارہ گرا وہ بحریہ ٹاون اسلام آباد فیز 7 کا مضافاتی علاقہ تھا ۔

طیارے کی زد میں دو گھر آئے جو مکمل تباہ ہو گئے ۔طیارے میں سوار دونوں پائلٹس سمیت عملے کے پانچ افراد اور دونوں گھروں کے مکین دیگر بارہ افراد شہید ہوگئے۔ آگ نے آس پاس کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے دس کے قریب لوگ زخمی ہوئے، ریسکیو کی ٹیمیں جو پہلے سے سٹینڈ بائی پر تھیں اور طیارے کی لینڈنگ لوکیشنز کی طرف نکل پڑئی تھیں بروقت حادثے کی جگہ پہنچیں اور آگ پہ قابو پالیا۔

 یہ سب جان کر میرا یمان پاک فوج کی ہمت، حونصلے ، دلیری اور قربانی پر اور پختہ گیا۔ اگر پائلٹس جن کے پاس آپشن موجود تھا اپنی زندگیاں بچانے کے لیے طیارے سے ایجیکٹ کر جاتے اور خدانخواستہ یہ طیارہ پوش ترین علاقے میں بلڈنگز اور گھروں کو روندتا نکل جاتا تو آج ہم لاشیں گِن رہے ہوتے اور نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا یا شاید خود لاش بن گئے ہوتے۔

اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آخری لمحے تک طیارے کو کنٹرول میں رکھنے اور مقامی آبادی کو بڑے نقصان سے بچانے والے ان جانباز سپاہیوں کو جتنا خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ یہ رات صرف رات نہیں تھی اور جو منظر میں نے خو دیکھا تھا، وہ میرے لیے زندگی کی اصل قدر جاننے کے لیے کافی تھا۔ یہ طیارہ میرے گھر کے عین اوپر سے گزرا تھا۔
 یہ پائیلٹس کی جانبازی تھی کہ وہ اسے آبادی سے دور لے گئے اور مضافاتی علاقے میں اسے ڈراپ کردیا۔

یوں اپنی جانوں کا نظرانہ دے پاک فوج کے پائیلٹس نے کئی جانیں بچا لیں۔ آج گھر کی اسی بالکونی پر جہاں میری آنکھوں نے یہ تمام منظر قید کیا تھا، رات کے آخری پہر قارئین کے لیے تحریر کرہا ہوں،تاکہ ایک گونج ہمیں پاک فوج کے جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ زندگی کی اصل حقیقت بھی بتا سکے،وہ حقیقت جو شاید موڑہ کلو کے گاؤں میں ان دو گھروں میں سکون کی نیند سوئے بارہ افراد پر بھی آشکار نہ تھی،جو پلک جھپکتے میں خوابوں کی دنیا میں ہی دھواں ہوگئے اور مے ڈے کال بھی نہ دے سکے۔ہم سب کی زندگی کی اصل حقیقت بس اتنی ہی ہے جو کسی مے ڈے کال کی بھی محتاج نہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :