میڈیا وار اور سنسر پالیسیاں

پیر 14 اکتوبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ اس دنیا کا پرانا ہتھیار ہے۔آپ اپنے مقاصد حاصل کرنے چاہتے ہو ،تاریخ بدل دو۔لوگوں کو وہ بتاؤ جو تم بتا نا چاہتے ہو،باقی سب مسخ کردویا اپنی حمایت میں موڑ دو۔مغل شہنشاہوں کے مورخین کے بارے میں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ انہوں نے بہت کچھ شہنشاہوں کی مرضی کے مطابق ڈھال دیا یوں آنے والی نسل ،بہت کچھ جاننے سے محروم رہ گئی۔

عوام کو وہی بتایا گیا ،جو شہنشاہ ان کو بتانا چاہتے تھے،یوں کئی سو سال مغلوں نے نسل در نسل حکمرانی کی۔ اس ہتھیار کا سب سے خوبصورت استعمال اڈولف ہٹلر کی موت کے بعد ،ان طاقتوں نے کیا ،جو دنیا کو ہٹلر کی طرح فتح کرنے کے خبط میں مبتلا تھیں۔ہٹلر کی موت کے بعد برطانوی پریس میں باقائدہ طور پر ہٹلر کے خلاف بے پناہ مواد شائع کیا،ہٹلر کی آسٹرین زندگی سے لے کر پہلی جنگِ عظیم میں زخمی ہونے ،Eva سے شادی اور پھر اپنے کتے سمیت ،اگلے ہی دن برلن میں بمباری کے شور میں خودکشی کرلینے تک، تاریخ کو بری طرح مسخ کردیا گیا۔

(جاری ہے)

ہالی وڈ انڈسٹری نے جب عروج پکڑا تو یہ کام ان کے سپرد ہوگیا ،اور ہٹلر کو دنیا کا منحوس ترین شخص قرار دینے کے لیے کئی فلمیں بنائی گئیں۔یوں آج ہم میں سے ہر شخص ہٹلر کو پوری دنیا کے سب سے جابر شخص کے طور پر جانتا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی برطانوی پریس سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کے واقعے پر کچھ خاص نہیں چھاپا گیا،اسی طرح ہالی وڈ نے جتنی ہولناک فلمیں ہٹلر پر بنائیں،جاپان پر گرائے گئے ایٹم بم ،ان کے اثرات اور آنے والی کولڈ ورلڈ وار اور پھر عالمی ایٹمی جنون کے بارے میں ہالی وڈکسی طور خاموش نظر آیا۔

بھارتی فلم سازوں نے بھی ہالی وڈ سے یہ کمال سیکھ لیا ہے،وہ لوگوں کی سوچ 180 کے زاویے پر بدل دیتے ہیں اور جو وہ دکھانا چاہتے ہیں،وہ دکھا کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیتے ہیں۔پوری دنیا میں اسے میڈیا وار کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان کے آج دہشت گرد انٹرنیشنل امیج اور کشمیر کاز مکمل طور پر تباہ کرنے میں بھی بھارت کے طاقتور ترین بالی وڈ کا ہی ہاتھ ہے ۔

ایک وقت تھا جب پاکستان کی فلم نگری اپنے عروج پر تھی ، وحید مراد، محمد علی،زیبا اور ان جیسے کئی عظیم اداروں کے نام پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ساتھ جڑے تھے، ہم بالی وڈ سینما کے برابر تھے، ہمارے کام کی قدر کی جاتی ہے اور پوری دنیا کے سینما گھروں میں ہماری فلموں کی نمائش کی جاتی تھی۔ پھر پاکستان کی فلم انڈسٹری کو زوال شروع ہوگیا اور دوسری طرف بالی وڈ نے اتنی تیزی سے ہی عروج کی جانب سفر شروع کردیا۔

ء میں جس ملک میں 1100 سینما ہوا کرتے تھے، بند ہونے لگے تو 2005ء میں ان کی تعداد صرف 120 رہ گئی۔ پھر وقت بدلا، اینڈرائیڈ ٹیکنالوجی عام ہوئی اور یوٹیوب کلچر فروغ پانے لگا،اس میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری انڈیا کے فرسودہ پانچ پانچ سو قسطوں والے ڈراموں پر بازی لے گئی اور یوں پاکستان کے سینما کے پھر سے اٹھنے کی امید پیدا ہوگئی۔ جدید ملٹی پلیکس سینما بننے لگے اور پاکستان کے ہر بڑے شہر میں شاپنگ مالز میں بہترین سینما کی بھر مار ہوگئی اور اس مارکیٹ کو پڑوسی ملک کی انتہائی مضبوط فلم انڈسٹری کھانے لگی۔

پاکستان میں سینما تو ترقی کرگیا ،مگر فلم انڈسٹری اس طرح ترقی نہیں کرسکی۔اس کی بڑی وجوہات میں ہمارا سخت ترین سنسر بورڈ اور نا تجربہ کاری تھی۔ ایک بات حیران کن تھی کہ وہ انڈسٹری جو دنیا میں شاہکار ڈرامے دے رہی ہے اس کو فلم نگری میں اس طرح پذیر ائی کیوں نہیں مل رہی۔اس کی وجوہات میں ایسی پابندیاں شامل تھیں، جو ایک دوبارہ سے سانس لیتی انڈسٹری کو مردہ کرنا پر تلی ہوئی تھیں،ان پابندیوں کا تعلق کسی قسم کی نازیبا مواد سے نہیں تھا،بلکہ اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال 2016ء میں دھواں ڈرامہ کے مشہور ادکار اور ہدائیت کار عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ تھی ۔جس کو اس وجہ سے بین کیا گیا کیونکہ اس میں پاکستان میں سیاسی نظام کی دھجیاں اڑا دی گئیں تھیں ۔بعد میں فلم ریلیز کردی گئی،مگر فلم اس قدر متنازع بنادی گئی کہ وہ باکس آفس پر بڑا بزنس کرنے میں ناکام رہی اور یوں عاشر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

وہ کینیڈا میں ٹرک چلانے لگے اور یوں صرف سنسر بورڈ کی سختیوں نے ایک ایسے شخص کا ہنر ضائع کردیا جو ہماری فلم انڈسٹری کے لیے بہت اہم تھا۔ حال ہی میں پاکستان میں ’ مردہ خوری‘ کے حقیقی واقعات پر مبنی فلم ’درج‘ کو بھی سنسر بورڈ کی بدترین پابندیوں کا سامنا ہے۔یہ ملک پوری دنیا میں ریلیز کی جاچکی ہے ،جبکہ پاکستان میں اسے روکا جارہا ہے۔

یہ وہی مردہ خوری کے واقعات ہیں کہ جن کو پاکستان کے ہر نیوز چینل پر دکھایا گیا، ان کی لاشوں کے ساتھ وڈیوز نشر کی گئیں، ہانڈیوں میں پکا ہوا انسانی گوشت دکھایا گیا، مگر فلم کو پاکستان میں نشر کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے اداکار اور ہدائیت کار شمعون عباسی اس کی ریلیز پر لاکھوں روپے خرچ کر چکے ہیں اور بار بار وزیر اعظم سے اپیل بھی کررہے ہیں اور قابل اعتراض سین بھی نکالنے پر آمادہ ہیں، مگر اس فلم پر بین برقرار ہے۔

اس فلم کا حال بھی مالک جیسا ہوا تو شاید ایک اور عاشر عظیم جنم لے گا اور اس سے کئی ایسے ہنر مند لوگ اچھی فلمیں بنانے سے پہلے ہی دل ہار جائیں گے۔ مجھے بار بار عمران خان صاحب کی یونائیٹڈ نیشن کے اجلاس میں کی گئی تقریر یاد آتی ہے جس میں انہوں نے مشہور فلم ڈیتھ وش کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ دنیا اس سے سبق لے۔ انہوں نے واپس آکر دنیا کو اسلام فوبیا سے نکالنے کے لیے اچھی فلموں کو فروغ دینے کا بھی عندیہ دیا،مگر دوسری طرف ہمارا شدید سخت ترین پالیسیوں کا شکار سنسر بورڈ یہاں بہت سی اچھی فلموں کو بننے سے روک رہا ہے۔

آپ سب ویب سیریز کے نام سے واقف ہوں گے۔ ویب سیریز ڈیجیٹل دنیا کا سینما ہے،جس میں مختلف ایپس مشہور ہوکر، فلم سازی کرتی ہیں۔ان فلموں کو ان ایپس یا ویب سائیٹس پر ہی ریلیز کیا جاتا ہے اور ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ بھارت اس سیریز میں جہا ں ساری حدود پار کر چکا ہے ،وہاں فلم بینوں کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی گھیر رہا ہے،اور یہی کھیپ جو بظاہر تو بولڈ ترین مواد دیکھنے آتی ہے،بعد میں ایسی فلموں کا شکار ہوگی،جو کشمیر کاز کو متاثر کریں گی،پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگائیں گی ،وہی کام جو بالی وڈ کافی عرصے سے کررہا ہے،وہ اب ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ان فلموں میں کیا جائے گا،اور ایسی بہت سی فلمیں ان کی ان مشہور ایپس اور ویب سائیٹس پر ریلیز بھی کی جاچکی ہیں۔

ان کے لیے نا تو کسی سنسر بورڈ کی ضرور ت ہے اور نہ ہی کسی اجازت کی۔ چند ڈالرز میں ایک ایک سال کی ٹکٹ دے کر،ان فلموں پر اشتہار لگا کر یہ ایپس جہاں لاکھوں ڈالر کما رہی ہیں،وہاں شہنشاہوں کے مورخ کی طرح تاریخ بھی بدل رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی ویب سیریز پر کام شروع ہوچکا ہے، مگر یقینا یہ کام بھی بھارت سے اتنا ہی پیچھے ہے ،جتنا کہ ہماری فلم انڈسٹری ،بالی وڈ سے پیچھے ہے۔

ہمیں یقینا معاشرتی اور مذہبی پہلو سامنے رکھتے ہوئے،کسی حد تک سنسر میں سختی رکھنی ہے، مگر یہ سختی اس قدر ہو کہ اس میں سیاسی عنصر شامل نہ ہو۔ بولڈ مناظر،آئیٹم نمبر کلچر کی نفی کی جاسکتی ہے، مگر بولڈ ہدایت کاری،سچائی اور سخت ترین موضوعات پر بنی فلموں پر سنسر کی قینچی کا چلنا ،یہاں کبھی ڈیتھ وش جیسی فلمیں نہیں بننے دے گا۔ بالی وڈ نے پاکستان اور کشمیر کو لے کر جس طرح اپنے ڈھائی ارب فلم بینوں کے ذہنوں میں زہر گھولا،اس کا اثر زیر کرنے کے لیے آپ کو بہت مضبوط فلم انڈسٹری کی ضرورت ہے۔

ویب سیریز کلچر آنے والا وقت میں بھارت کا ایک اور بڑا ڈیجیٹل ہتھیار ہوگا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جس ایٹم کے غرور میں ہم بہت سے میدانوں میں بھارت سے ہار رہے ہیں،وہیں یہ میدان حال کی ہار کے ساتھ ،مستقبل کی تاریخ بھی بدل رہا ہے۔بالکل ویسی جیسے ہم ہٹلر کو آج ویسا ہی جانتے ہیں،جیسا ہالی وڈ کی فلموں نے دکھایا،فاشسٹ،ہولوکاسٹ کا بانی،جبکہ حقیقت میں وہ جرمن قوم کا سب سے بڑا مسیحا تھا۔ اسی طرح آنے والے وقتوں میں دنیا کشمیر اور پاکستان کو ویسے ہی دیکھے گی،جیسا بالی وڈ کا سحر دکھائے گا،ہمیں اس کا تدارک کرنا ہوگا اور اس کی بنیاد ہمیں سنسر بورڈ میں بولڈ حقیقت پسند فلموں کو آزادی دے کرنا ہوگی اور ان کو سیاست سے دور رکھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :