صحرا میں زندگی کا لنگر

پیر 4 نومبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

جہاز سکھر ائیر پورٹ پر اترا اور باہر کی دنیا ہی الگ تھی۔ اسلام آباد سے سکھر اور اب گاڑی سندھ کے پسماندہ ترین علاقے گمبٹ کی جانب گامزن تھی جو سکھر سے پچاس کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گھوٹ یا قصبہ تھا۔ پورے راستے میں کئی بار اپنے آپ کو یہ یقین دلاتا آیا کہ یہ بھی پاکستان ہے ،دور دور تک ریت،کھجور کے درخت اور غربت، میں پاکستان کے سب سے بڑے سرکاری جگر کی پیوندکاری کے یونٹ کی طرف جارہا تھا۔

جہاں نوے کے قریب مفت جگر کے ٹرانسپلانٹ کیے جاچکے تھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پنجاب جیسے صوبے میں اربوں روپے خرچ کر کے بھی امریکہ برطانیہ کے ڈاکٹر کچھ نہیں کرسکے،گمبٹ میں ایسا کیا معجزہ تھا جو ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر اور ان کی ٹیم نے کردیا تھا۔ یہ سب سننے کے لیے حیران کن تھا،پچاس ساٹھ لاکھ روپے کا جگر کا ٹرانسپلانٹ مفت کیسے ہورہا تھا؟صرف پاکستان کے اندر ٹریننگ حاصل کرنے والے ڈاکٹرز یہ سب کیسے کررہے تھے اور وہ بھی اس علاقے میں جہاں صاف پانی ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے؟یہ سب حیران کن تھا۔

(جاری ہے)

اس سب کے پیچھے کون شخص تھا،مجھے اس کے بارے میں بھی جاننا تھا۔ جوں جوں گمبٹ کی جانب بڑھتا گیا، تجسس بھی بڑھتا گیا، پھر اسی ریگستان کے بیچ گاڑی گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائینسز کے ہیلتھ کمپلیکس میں داخل ہوئی۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا ٹراما سنٹر،یعنی Rapid Response Centre تھا، یہاں گردوں کے مفت ٹرانسپلانٹ ہورہے تھے،آنکھوں کے تبدیلی کے آپریشن ہورہے تھے،سندھ کا سب سے بڑا برن یونٹ تھا ، میڈیکل کالج تھا اور پتہ نہیں کیا کیا۔

یہ سب سندھ حکومت کررہی تھی،جس کے بارے میں ٹی وی پر جب سنا یہی سنا کہ وہاں تو ایک سرنج تک غریب مریضوں کو میسر نہیں آتی۔ مجھے ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کی تلاش تھی۔ یہ شخص پینتالیس سال سے صحت کے شعبے سے جڑا تھا،فوج سے چالیس سال پہلے بطور کیپٹن ریٹائیرمنٹ حاصل کی اور اپنے علاقے میں معجزے کرنے کے لیے یہاں ایک ڈسپنسری کھول لی۔یہ ڈسپنسری بعد میں چھوٹا سا ہسپتال بنی، پھر ٹی ایچ کیو ہسپتال اور اب وہ سب جس پر آنکھوں سے یقین کرنا مشکل تھا۔

ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی یکم مارچ 1946ء کو اسی علاقے میں پیدا ہوئے۔گمبٹ سے ہی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حاصل کی اور لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد پاک فوج سے منسلک ہوگئے۔ فوج سے ریٹائیرمنٹ کے بعد 1974ء میں سندھ گورنمنٹ کے صحت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہوئے اور گمبٹ کی قسمت بدل دی۔ میں ذاتی طور پر اس باریش شخص سے ملا،آج پینتالیس سال بعد بھی یہ شخص صرف اپنے علاقے کی ترقی کی بات کررہا تھا۔

ڈاکٹر رحیم بخش کو اتنی ترقی پر جہاں بین الاقوامی مدد ملی ،وہاں سرکار میں دونوں طرح کے لوگوں سے بھی جہد کرنا پڑا۔ کچھ نے ہمیشہ مدد کی اور کچھ ان کے کام کی مخالفت کرتے رہے، مگر ان کے دماغ میں ایک بات بیٹھی تھی کہ گمبٹ کے لیے کچھ کرنا ہے اور اس داغ کو بھی دھونا ہے کہ سندھ کے لوگ کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، مجھے پنجاب کے اربوں روپے کے پراجیکٹ ایک شخص کے عزم، ہمت، حونصلے اور مسلسل کام کرنے کی لگن کے سامنے ہارتے دکھائی دیے۔

آپ ایک صحر ا کا تصور کریں، آپ ڈاکٹر ہوں، آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے صحت کے شعبے کی بدترین پسماندگی دیکھی ہو،صحرا میں ایک دروازہ کھلے ،اور سامنے گمبٹ کا یہ جدید ترین ہسپتال ہو،ایسا جیسا شاید امریکہ میں بھی ایک چار دیواری کے اندر اکٹھے نہ مل پائے،آپ کے جذبات کیا ہوں گے؟ میں نے یہاں معدہ و جگر کا یونٹ ،سربراہ ڈاکٹر مجاہد صاحب کے ساتھ دیکھا، جو کچھ دیکھا، یہ سب شاید برطانیہ کے بھی بہترین یونٹس میں نہیں ہورہا تھا،اور اب میں جگر ٹرانسپلانٹ کے یونٹ میں اس گھوٹ میں ایک غریب انسان کا مفت ٹرانسپلانٹ دیکھ رہا تھا۔

یہ وہ انسان کررہا تھا، جس کی زندگی راقم القلم کے لیے ہمیشہ ایک آئیڈیل بڑے بھائی جیسی رہی ہے۔ پاکستان کی جراحی کی بہترین اور سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی سیریز ڈوگر سرجری کا یہ لکھاری، میرے علاقے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ تعلیم بھی ہماری ایک ہی قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کی ہے۔ مگر اس شخص کی زندگی مجھ سے بہت فرق ہے۔جراحی میں پوسٹ گریجویشن کے بعد ،یہ شخص پیسہ سعودی عرب سے گزر اوقات کے لیے کما کر کیسے تائیوان جگر کی پیوندکاری کی ٹریننگ کے لیے گیا اور آج گمبٹ میں ڈاکٹر رحیم بخش کے مشن کا کیسے حصہ بنا یہ سب اگلی تحریر کاحصہ ہوگا۔

ابھی میری آنکھوں کے سامنے ریگستان میں جگر کا 90 واں ٹرانسپلانٹ ہورہا تھا۔ وہ شخص جو شاید چھ مہینے بعد اسی ریگستان میں کسی ویران قبر کا حصہ ہوتا، ایک نئے جگر کے ساتھ ،نئی زندگی جینے جارہا تھا، مجھے اس ان دیکھے خواب کو ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کی زبان سے سننا تھا۔ ڈاکٹر ڈوگر،جگر کی شریانوں کو جوڑ رہے تھے،میری جانب دیکھ کر بولے،کیسا لگا یونٹ؟ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے،جواب کہا ں تھا،سینہ سوالوں سے بھرا پڑا تھا۔

وہ سرجری سے فارغ ہوئے اور میں ان سے تجسس میں سوال کرنے لگا۔ بھائی آپ یہاں کیسے کب آئے؟ یہ سب کیسے کیا؟ یہ گمبٹ میں کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کڑوڑوں روپے کی جدید مشینری اور یونٹ دکھانے لگے۔ مجھے بتانے لگے کہ میں یہاں ایک شخص کی زبان پر آگیا،اور ہم نے یہ سب کردیا اور ابھی آگے اور بہت کچھ کرنا ہے۔ پاکستان میں دس لاکھ لوگوں کو جگر کی تبدیلی چاہیے،ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کا ویژن ان سب کے لیے ہے،گمبٹ ان سب کے لیے ہے۔

یہاں جرمن ٹیم کام کررہی تھی،وہ کامیاب نہیں ہورہی تھی۔2016ء میں ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی خود میرے پاس آئے، مجھے گمبٹ میں اپنا کام دکھایا،یہ مجھے بہت زیادہ جوشیلے لگے۔بار بار سندھ،گمبٹ ،اپنے لوگ،غریب لوگ کرتے رہے۔مجھے کام میں آزادی چاہیے تھی،میں انقلاب لانے کو تیار تھا۔ ڈاکٹر رحیم بخش مجھے یہاں لے آئے اور میں نے یہ سب کردیا۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔

پوری ٹیم بنانی پڑی،ملک کے کونے کونے سے تجربہ کار ڈاکٹر بلانے پڑے،انہیں گمبٹ لانا پڑا اور اب یہ سب تمہارے سامنے ہے۔ ویژن بہت بڑا ہے،مگر مجھے پتہ ہے،ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی اور سندھ حکومت کے ہوتے ہوئے،ہم بہت بڑا انقلاب لانے جارہے ہیں۔میری پوری ٹیم میڈ ان پاکستان ہے،اور ہم نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ میں رات گمبٹ گھوٹ میں اکیلا نکلا،صحرا کی وحشت جو شاید مجھے ختم کردیتی،آج ایسا کرنے کو قاصر تھی، ڈاکٹر رحیم بخش جیسا ایک شخص میری یہ وحشت کھا گیا تھا۔

میں قریب نہر کنارے بیٹھ گیا،اور روشنیوں اور پلازوں سے بھرے پنجاب کے روشن شہروں کا سوچنے لگا، بڑے بڑے شاپنگ مالز،بڑی بڑی کاریں، ماڈرن لوگ، میری آنکھوں کے سامنے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز کی روشنیاں تھی،اور یہاں سوائے کالے آسمان اور ریت کے کچھ نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا کہ ہم نے ان شہروں میں شاید صرف زندگی جینا سیکھی ہے، موت کیسے جی جاسکتی ہے؟وہ میں نے اس گھوٹ میں آکر سیکھا۔

کوئی شخص اپنے علاقے کے لیے اتنا کیسے کرسکتا ہے؟ مجھے اس شخص کے پینتالیس سال نہیں، آنے والی کئی نسلیں نظر آئیں،کئی مائیں مسکراتی نظر آئیں،کئی بچے اسی صحرا میں کھیلتے دکھائی دیے،وہ جو اندھے تھے،ان کو آنکھیں مل گئیں،وہ جو خون کی الٹیاں کرتے موت کے منہ میں جارہے تھے،ان کو جگر مل گیا،وہ جن کا جسم پانی بھر کر سوج گیا تھا،ان کو گردہ مل گیا،وہ جو جل گئے تھے،ان کو جلد مل گئی،و ہ جو کسی ایکسیڈنٹ میں بری طرح زخمی آئے تھے،ان کو صحرا میں سٹیٹ آف آرٹ علاج مل گیا۔

میرے سامنے گمبٹ کے ہیلتھ کمپلیکس کا دروازہ تھا،اس کے اندر رحیم بخش کا کمپاؤنڈ تھا،وہ چالیس سال پہلے یہاں ڈسپنسری کھولنے آیا تھا، اور آج اس دروازے میں موت کے فرشتے کی انٹری منع تھی۔ میں ریت پر چلنے لگا، مجھے پنجاب کے بڑے بڑے شاپنگ مالز کے سنگ ِ مرمر اس ریت کے سامنے،ریت ہوتے دکھائی دے ر ہے تھے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ایسامنظر دیکھا تھا،میں نے کسی شخص کو تاریک ریگستان میں لوگوں کو زندگیوں کا لنگر بانٹتے دیکھا تھا۔

کاش پاکستان کے ہر کونے میں ایسا ہی ایک صحر ا ہوتا،ایسا ہی ایک ڈاکٹر رحیم بخش ہوتا اور ایسا ہی ایک گمبٹ ہوتا،جہاں زندگی نہیں موت کو جینا سکھایا جاتا۔ کچھ منظر جسم نہیں روح کو چھو جاتے ہیں،یہ منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔موت سے زندگی کی طرف آتا ایک صحرائی منظر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :