حرم سے حریم تک

جمعہ 10 جنوری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

برصغیر کے حاکموں کی تاریخ اٹھالیں، آپ کو مغلوں،مرہٹوں،مہاراجوں کے محلات میں کنیزوں اور رقاصاؤں کے مشہور نام ملیں گے۔یہ نام بعض تاریخ کی کتابوں میں ان بادشاہوں سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔کتنے نام ایسے ہیں جو خود ان کے مورخ مسخ کرتے گئے،مگر یہ تاریخ اس قدر رنگیلی ہے کہ اس کی بازگشت آج کے ایوانوں میں بھی ہے۔ آپ شہنشاہ اکبر کے دور میں ’ملوا‘ کے حکمران باز بہادر کے دربار کی روپ متی کا قصہ اٹھالیں۔

یہ اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کا چرچا پورے برصغیر میں تھا۔ یہ باز بہادر کے حرم کی باندی تھی،باز بہادر کی نظموں میں روپ متی کا ذکر اکثر ملتا ہے۔شہنشاہ اکبر تک بات پہنچی تو اکبر نے باز بہادر سے روپ متی کو اپنے حرم کے لیے مانگ لیا۔انکار پر شہناہ اکبر نے ملوا پر حملہ کردیا، جنگ ہوئی مگر اکبر کی فوج کے سامنے سب ریت ہوگیا۔

(جاری ہے)

ملوا پر قبضہ ہوگیا اور باز بہادر خان دیش بھاگ گیا۔

کہتے ہیں کہ جب اکبر باز بہادر کے حرم میں روپ متی کو لینے گیا تو اس نے باز بہادر کی محبت میں زہر کا پیالہ پی لیا اور مر گئی،اکبر اس کے حسن اور وفاداری سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس کے لیے اجین میں مقبرہ بنوایا اور باز بہادر بھی مرنے کے بعد،اسی مقبرے میں اس کے ساتھ دفن ہے۔یہ ایک روپ متی کی کہانی ہے، آپ نادرا بیگم انارکلی سے لے کر، رانا دل،لال کنور،نور بائی،مستانی،مدوپالانی اور کئی نام تاریخ میں اٹھالیں،آپ کو سمجھ آجائے گی کہ کس طرح حرم کی ان کنیزوں کی بادشاہوں تک رسائی رہی،ان میں کتنی روپ متی کی طرح وفادار رہیں اور کتنی خود بادشاہوں کے راز دوسروں تک پہنچاتی رہیں اور پورے کے پورے تخت تباہ و برباد کردیے۔

شاہ رنگیلا ،پورے برصغیر کے بادشاہوں میں سب سے زیادہ عشرت پسند حکمران تھا اور اس کے زوال کی بنیادی وجہ اس کی یہ عیاشیاں تھیں،جنہوں نے سب برباد کردیا۔ دور بدل گئے، دنیا بدل گئی، دربار بدل گئے، کنیزوں اور حرم کے اندازِ وار بدل گئے، مگر بنیادی انسانی خصلت نہیں بدلی۔ وہ سب ویسے ہی قائم رہا اور یہ داستانیں بھی اسی طرح رقم ہوتی رہیں۔

ماڈرن دنیا میں اینڈرائیڈ ٹیکنالوجی سے انقلاب برپا کردیا، پہلے شہنشاہ مورخوں سے اپنی مرضی کی تاریخ لکھوایا کرتے تھے،یوں حرم کی کتنی باندیاں دنیائے شہرت سے محروم ہوگئیں،کتنے نام ایسے ہیں جو منظر عام پر نہیں آئے اور یوں عیاشی کی کئی داستانیں تاریخ کے ساتھ ہی اپنے تمام رنگیلے پن کے باوجود دفن ہوگئیں۔ ایک وقت میں ایک لکھاری کی کتاب نے تہلکہ مچا دیا تھا،یہ کتاب اس ملک کے ماضی کے حاکموں اور وزیروں مشیروں کے ایسے ہی حرم کی داستانیں تھیں۔

یہ کتاب لاکھ پابندیوں کے باوجود ہر کسی کے ہاتھ لگی اور ہر کسی نے چونکا دینے والے انکشافات پڑھ ڈالے۔ موجودہ دور میں جب یہ سب حرم سے سفر کرتا حریم شاہ تک آیا تو اس کتاب کے ساتھ مغل کے کئی مورخ بھی زندہ ہوگئے،روپ متی ،انار کلی سب زندہ ہوگئیں، سفر مغل کے دربار کے قالین سے ٹک ٹاک تک کا تھا،مگر اس نے یقینا پورے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیے۔

حریم شاہ اور صندل خٹک دونوں سہیلیاں ہیں، یہ کہنے کو پڑھتی ہیں،مگر یہ ٹک ٹاک پر اوٹ پٹانگ وڈیوز بنا کر منظر عام پر آئیں اور ان کی اصل وجہ شہرت ملکی اہم ترین شخصیات کے ساتھ ان کی تصاویر اور ملک کے حساس ترین دفاتر تک ان کی رسائی تھی۔ یہ وہاں تک نہ صرف پہنچیں،بلکہ ان اہم مقامات میں جہاں عام آدمی تو کیا،کسی خاص کو بھی شدید سیکورٹی چیک سے گزرنا پڑتا ہے، اپنی مرضی کی وڈیوز بناتی رہیں ،اور ان کو کوئی روکنے والا نہیں تھا۔

انہوں نے ائیر پورٹ پر کسی کے ذاتی جہاز میں بغیر اجازت وڈیو بنا ڈالیں،وہ نام بھی صحافی برادری کا ایک طاقتور نام تھا،مگر ان کے خلاف اب تک کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہوسکی۔ پھر یہ خواتین باہر کی شخصیات کے ساتھ وڈیوز بنا کر ڈالتی رہیں،جن میں اکثریت غیرملکی باشندوں کی تھی،یہ اہم ترین وزراء کے ساتھ اپنی آڈیو ریکارڈنگز اور وڈیو کالز لیک کرتی رہیں،اور ان پر کسی قسم کا کوئی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

ایک ایپ سے مشہور ہونے والی یہ خواتین راتوں رات سٹار بنادی گئیں۔ان کو ہر میڈیا چینل نے کوریج دی،ان کے اس قدر بولڈ انداز میں سب کرنے پر سوال اٹھائے جانے لگے۔مگر پورے نظام میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اگر ہم تھوڑا سا تاریخی پس منظر اٹھائیں،اور قندیل بلوچ کی وجہ شہرت کو تلاش کریں تو وہ سب بھی ایسا ہی کچھ تھا،مگر اس میں کہیں کوئی بڑا نام شامل نہیں تھا۔

قندیل بھارت کے سب سے بڑے رئیلٹی شو بگ باس میں ڈیجیٹل میڈیا سے اپنی متنازع ترین وڈیوز کے باعث منتخب ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔قندیل نے فیس بک کو اپنا ہتھیار بنایا تھا،اس وقت یہ انسٹا گرام،ٹویٹر،ٹک ٹاک یاں دیگر سوشل میڈیا ذرائع اتنے مقبول نہیں تھا،اورٹک ٹاک تو ابھی ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، مگر قندیل حریم جیسی خواتین کے لیے آئیڈیل بن گئیں اور آج آپ ٹک ٹاک اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنے گھروں کی عزتوں کی آئیڈیل آج حریم ہے۔

پاکستان میں ان ایپس جن میں کئی چھوٹی ایپس بھی شامل ہیں،آنے والے وقت میں شہرت اور پیسے کی آڑ میں بہت کچھ تباہ کرنے جارہی ہیں۔ شہنشا ہوں کے حرم سے حریم شاہ کے سفر میں اگر آپ کچھ دیر مغلوں کے مورخ اور اس مشہور لکھاری کو ایک طرف بھی رکھ دیں، تب بھی غیرت،عزت کے کئی لبادے لیے ،اس ملک میں یہ کلچر بہت بڑی تباہی کو دعوت ہے۔ یہ چھوٹے گھروں میں پیسہ اور شہرت لے آیا ہے،اور اب بات مورخوں کے قلم اور حرم کی چار دیواری سے باہر نکل چکی ہے۔

اب یہ داستانیں طویل ہیں۔ اب یہ کہانیاں یہاں تھمنے کا نا م نہیں لیں گی۔المیہ ان ٹک ٹاک سٹارز کی رسائی اور طاقت نہیں ہے،المیہ ان کی شہرت ہے۔المیہ ا ن کو رول ماڈل بنایا جانا ہے۔اس سے کئی کچے ذہن ،اسی طرح ان کی راہ پر نکل پڑیں گے،جیسے یہ قندیل بلوچ کو دیکھ کر یہاں تک آئیں،یہ اس کا انجام بھول گئیں اور دنیا ان کا انجام بھول جائے گی،جہاں تک بات شاہ رنگیلا کی داستانوں کی ہے، اگر ایسے چہرے حقیقی معنوں میں وہاں تک رسائی لیتے رہے،جہاں تک ان کی ٹک ٹاک وڈیوز کی حقیقت ہے ،تو وہ وقت دور نہیں جب ان کا حصہ بھی تخت الٹنے میں ہوگا، ملکی رازوں میں ہوگا،اہم فیصلوں میں ہوگا۔

حریم سے حریم شاہ تک کے سفر کی اس سے زیادہ ہولناک شکل اور کیا ہوگی؟ جہاں ایک طرف ہر گھر برباد ہوگا،وہیں یہ آگ اوپر تک پھیلتی چلی گئی۔ پورا معاشرہ اگر سوشل میڈیا پر ان کو سٹار بنانے کی سعی میں لگا رہے گا،تو ساتھ دروازے میں ان کے گھر کی عزت ایسے ہی سٹار بننے کی کوشش کرتی رہے گی اور پھر ایک نہیں بہت چہرے اس حرم کا حصہ ہوں گے،جو محلات میں ہوتے ہوئے بھی،چار دیواری نہیں رکھتے،پورا معاشرہ بے لباس ہوگا اور اگر ایسے رابطے دشمنوں کی رسائی میں بھی ہوئے تو پورا رنگیلا نظام ہی حرم سے حریم تک منٹو کی کسی کتاب کا آخری باب ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :