سرکاری اتائیت ساز فیکٹری ؟

بدھ 6 اکتوبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

پنجاب کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں حکومت پنجاب نے پڑے لکھے غریب نوجوانوں جن میں مرد اور خواتین بھی شامل ہیں کو فنی تعلیم دلانے کیلئے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کئے اور بے روز گار نوجوان نسل کو ہنر مند بنا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے مختلف ٹریڈز میں فنی تعلیم کی ٹریننگ شروع کی گئی جن میں ایک ٹریڈ میڈیکل کا بھی رکھا گیا۔

جس میں ایک کورس جسے کلینیکل اسسٹنٹ کا نام دیا گیا شروع کرایا گیا جس کا دورانیہ 14ماہ ہے۔ اور اس 14ماہ کو تین حصوں میں تقسیم کر کے داخلے دیئے جاتے ہیں۔ پہلے چھ ماہ کالج میں تھیوری پڑھائی جاتی ہے جس میں نرسنگ، اناٹومی، فزیالوجی فارما کالوجی، پتھالوجی،ریڈیالوجی وغیرہ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور اس کے بعد اگلے چھ ماہ کسی بڑے ہسپتال میں ٹریننگ کیلئے بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کو تمام وارڈوں میں ڈیوٹی سر انجام دینا ہوتی ہے اور اس دوران امتحانات بھی شروع ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ساتھی ہی آن جاب ٹریننگ کیلئے انہیں شہر کے سپیشلسٹ ڈاکڑوں کے پاس بطور اسسٹنٹ ڈیوٹی کرنے کیلئے دو ماہ کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح 14ماہ کا کورس مکمل کرایا جاتا ہے اور یہ جو ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں طلباء و طالبات کو داخلے دیئے جاتے ہیں جہاں میرٹ انتہائی سخت ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ یہ ادارہ زکوٰة کے پیسوں پر چل رہا ہے جہاں طلباء و طالبات کو یو نیفارم، کتب اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

امتحانات کے بعد کچھ عرصہ بعد ان کا رزلٹ آتا ہے پاس ہونے والے طلباء و طالبات میں پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کی طرف سے ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ جس میں نرسنگ ، ڈسپنسنگ ، لیبارٹری، پروفیشنل ایتھکس، فرسٹ ایڈ اور نالج آف ہیومن باڈی درج ہیں، سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے پاس آؤٹ ہونے والے سٹوڈنٹس کا عملی امتحان شروع ہو جاتا ہے۔

2003سے لیکر اب تک ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ہیں جو VTI سے کلینیکل اسسٹنٹ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرچکے ہیں کیونکہ VTI سے سال میں دو کلاسز کورس مکمل کر لیتی ہیں۔
تقریباً 17سال کا عرصہ گذر جانے کے با وجود بھی کلینیکل اسسٹنٹ کا کورس کرنے والوں کو گورنمنٹ پنجاب نے آج تک کوئی قانونی حیثیت یا قانونی تحفظ نہیں دیا۔ نہ ہی ہسپتالوں میں ان کیلئے کوئی آسامیاں پیدا کی گئیں اور نہ ہی ان کیلئے کسی گریڈ کا تعین ہو سکا۔

گورنمنٹ کی ملازمت کے ان کے لئے دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔ اور نہ ہی ان کو کوئی میڈیکل سٹور چلانے کا لائسنس دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی فرسٹ ایڈ ڈسپنسری چلانے کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ڈسپنسر کلاس کرنے والوں کو سرکاری چھتری کا سایہ میسر ہے حالانکہ ان کی ٹریننگ کا دورانیہ ایک سال ہے، جبکہ کلنیکل اسسٹنٹ کا دورانیہ 14ماہ ہے اور ان کی ٹریننگ اور پڑھائی ڈسپنسر کے مقابلے میں بہت ہی اعلیٰ معیار کی ہے۔

اور انہیں اس کے با وجود بھی کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ نہ کلینیکل اسسٹنٹ کو پنجاب میڈیکل فیکلٹی تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے انہیں کوئی رعائیت دی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو حکومت پنجاب کی طرف سے اتائیت کے خلاف جاری آپریشن میں سب سے زیادہ ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے کلینیکل اسسٹنٹ کے ڈپلومہ رکھنے والے نشانہ بن رہے ہیں ۔

جنہیں محکمہ صحت اورارباب اختیار اتائی کہتے ہیں۔ ان تربیت یافتہ سرٹیفکیٹ رکھنے والے نوجوانوں نے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں عوام کو فرسٹ ایڈ مہیا کرنے کیلئے ڈسپنسر یاں قائم کیں ۔کیونکہ سرکاری ملازمتوں مین ان کیلئے کوئی کوٹہ نہیں رکھا گیا، پرائیویٹ ڈاکٹرز اور ہسپتال تربیت یافتہ عملہ اپنے پاس نہیں رکھتے کیونکہ وہ ان ٹرینڈ ملازم لڑکوں کو تنخواہ انتہائی کم دیتے ہیں جبکہ تربیت یافتہ اور کوالیفائیڈ اپنے معیار کے مطابق تنخواہیں مانگتے ہیں جو پرائیویٹ ہسپتال یا ڈاکٹرزانہیں نہیں دیتے تو مجبوراً انہیں اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کیلئے اپنی ڈسپنسریاں بنانی پڑتی ہیں۔

جو اس وقت اتائیت کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی آڑ میں صرف اور صرف کلینیکل اسسٹنٹ ہی زدمیںآ رہے ہیں ۔ حکومت پنجاب کے بنائے ہوئے ادارے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ یا پنجاب ووکیشنل کونسل نے ان کے مستقبل کے بارے میں آج تک کچھ بھی نہیں سوچا اور نہ ہی کلینیکل اسسٹنٹ کو کوئی قانونی تحفظ دیا اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے کلینیکل کا ڈپلومہ کرنے والے یتیموں کی طرح بے آسرا ہیں اور ساتھ میں ان پر اتائیت کا لیبل علیحدہ سے چپکادیاگیاہے۔

یوں سمجھئے کی VTI غریب اور مستحق افراد کا مستقبل بنانے کی بجائے عملاً بر باد ی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ یہ ادارہ صرف اور صرف اتائیت ساز فیکٹری میں تبدیل ہو چکا ہے، اگر یہ لوگ اتائی ہیں تو ان کا وقت کیوں بر باد کیا گیایاکیاجارہاہے؟ ان کو کیوں سہانے خواب دکھلائے گئے اور بار ہا یقین دہانی کرائی گئی کہ پنجاب میڈیکل فیکلٹی سے الحاق ہونے والا ہے اور عنقریب تمام ہسپتالوں میں بھی ملازمت کے مواقع مل جائیں گے۔

لیکن عملاً ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور اب تک جتنابھی اتائیوں کیخلاف حکومت نے کارروائیاں کیں ان کی زد میں VTI کے ڈپلومہ ہولڈرکلینیکل اسسٹنٹ ہی آئے۔ اگر یہ اتائی ہیں تو پھر سب سے پہلے اتائیت ساز فیکٹری ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے کہ انہوں نے ہزروں کی تعداد میں کلینیکل اسسٹنٹ کے روپ میں اتائی بنا کر کوئی قانونی تحفظ دیئے بغیر کیوں پیدا کیئے ؟اورپھر انہیں لاوارث چھوڑ دیا ہے، ارباب اختیار اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان خان بزداراس اہم مسئلے پرتوجہ دیں کیونکہ آج سے 17سال قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے یہ پروگرام ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں شروع کرایا تھا اس کی جواب دہ حکومت پنجاب ہے کیونکہ اگراس وقت کے وزیر اعلیٰ یاصوبائی حکومت اجازت نہ دیتے تو کبھی بھی یہ کلاسسزVTI میں شروع نہ کی جاتیں۔

ہماری حکومت پنجاب سے دردمندانہ اپیل ہے کہ کلینیکل اسسٹنٹ کا ڈپلومہ کرنیوالے غریب نوجوانوں کو قانونی تحفظ دیا جائے اورساتھ میں ان کی اہلیت کے مطابق انہیں لائسنس دے کر ڈسپنسریاں یا میڈیکل سٹوربنانے کی اجازت دی جائے اوران کیلئے ہسپتالوں میں ملازمت کے مواقع بھی پیدا کئے جائیں،ان کلینیکل اسسٹنٹ کولائسنس جاری کرنے سے حکومت کولائسنس فیس کی مدمیں کافی ریوینیوحاصل ہوگادوسرادورافتادہ علاقوں میں غریب عوام کوان کی دہلیزپرفرسٹ ایڈکی سہولت میسرآجائے گی۔

اگرحکومت پنجاب ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے ہزاروں کی تعدادمیں تربیت یافتہ کلینیکل اسسٹنٹ کو تحفظ نہیں دے سکتی تو پھر یہ اتائیت ساز فیکٹری کیوں چلائی جارہی ہے اسے فی الفور بندکردیاجاناچاہئے تاکہ نوجوانوں کا وقت بر باد نہ ہو۔اگر ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹوٹ والے قانونی طریقے سے میڈیکل کے ڈپلومہ کی ٹریننگ دے رہے ہیں تو پھر کلینیکل اسسٹنٹ کا ڈپلومہ کرنے والے سٹوڈنٹس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں روارکھاجارہاہے؟ اس جرم میں پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل اورحکومت پنجاب برابرکے ذمہ دار ہیں جوغریب نوجوانوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :