اسلام اور عورت

پیر 23 اگست 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم  چلی آرہی تھی۔ ہر خطہ ارض میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ مرد حضرات عورتوں کو عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے تھے انکے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیاجاتاتھا حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور  بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔

بھارت میں اہلیہ کو شوہر کی چتا کے ساتھ جلایا جاتا تھا ۔ سواٸے دین برحق کے ہر مذاہب میں  عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور گناہوں  کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا  اپنی روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں عورت کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔
عورت کو حقیر و ذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔

(جاری ہے)

عورت کے معاشی وسیاسی حقوق وفراٸض  نہیں تھے، عورت آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ عورت والد  محترم کی پھر خاوند کی اور اسکے بعد بچوں کی تابع اور غلام تھی۔ عورت کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی عورت کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا، یہاں تک کہ عورت کو فریاد کرنے کا بھی حق  حاصل نہیں تھا۔
دین اسلام کی آمد عورت کیلٸے غلامی، ذلت و رسواٸی  ، ظلم وحبر اور استحصال کے بندھنوں سے آزادی کی نوید تھی۔

لیکن دین اسلام نے ان تمام قبیح رسم و رواج کا قلع قمع کردیا ،جو عورتوں کے انسانی عزت و وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق و فرائض عطا کیے جس سے وہ انسانی معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق ہوٸیں جس کے مستحق مرد تھےجبکہ دین  اسلام نے عورت کو اس قدر عزت و تکریم دی کہ قرآن پاک کی ایک عظیم سورۃ کا نام سورۃ النساء ہے۔ پھر ایک اور سورۃ کا نام سورة مریم ہے۔


حضرت مُحَمَّد ﷺ  رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپﷺ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ  درگو کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق و فرائض  عطا فرمائے اور  سماجی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت و حیثیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں گٸیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق و  فرائض  دیتی ہے مگر عورت کی حیثیت سے نہیں،بلکہ مغربی معاشرہ  اس وقت عورت کو عزت دیتا ہے، جب تک وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے نہ دب جاٸیں، مگر آپﷺ کا لایا ہوا دین  فطرت عورت کی حیثیت و اہمیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق و فراٸض دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خود دین فطرت نے اس کے سپرد کی۔


اسلام دین فطرت نے عورتوں کو وہ حقوق و فراٸض دیے جو انہیں کسی بھی تہذیب اور مذہب نے نہیں عطا کیے۔ قرآن پاک اور احادیث میں جو احکامات مردوں کو دیے گئے وہی عورتوں کو بھی دیے گئے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’جو بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان کے عمل کا ان کو بہترین بدلہ دیں گے۔

‘‘سورۃ نحل
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’کہہ دو مومنین سے کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں، یہ ان کے لیے پاکی کا ذریعہ ہے۔ بے شک اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال سے باخبر ہے اور کہہ دو مومن عورتوں سے کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔‘سورۃ نورخاتم النبین حضرت مُحَمَّد ﷺ ؐ نے ایک حدیث میں عورت کے وجود کو دنیا میں محبوب قرار دیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں محبوب بنائی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔


اسلام نے عورتوں کی چاروں حیثیتوں ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کو اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا۔
ملاحظہ فرماٸیں!!!عورت بحیثیت ماں ایک مقدس مقام کی حقدار ٹھہری اور جنت اسکے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے۔
ماں وہ عظیم ہستی ہے جس نے نبیّوں اور ولیوں جیسی اعلیٰ ہستیوں کو جنم دیا۔ ماں کی گود اولین درس گاہ قرار پائی۔ ہر مرد جو انسانی ترقی کے عروج پر پہنچتا ہے اس کام یابی و کام رانی پر اپنی ماں ہی کا مرہون منّت ہوتا ہے ،اگر ماں ناراض ہو، تو ایک مسلمان اپنے تمام تر نیک اعمال کے ساتھ جنت میں نہیں جاسکتا۔

ایک ماں کا درجہ باپ کے مقابلہ میں تین  گنا زیادہ ہے۔
بیوی کی حیثیت سے عورت کو جہاں خاوند کا شریک ٹھہرایا گیا وہیں یہ بھی کہا گیا کہ تم میں سے وہ لوگ بہتر ہیں،جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں،ہر صاحب ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ جو تم کھاٶ، وہ بیوی کو کھلاٶ، جوتم پیو وہ بیوی کو پلاٶ  ،ان کو نہ ماروں  اور نہ ان کی برائی کروں۔

عورت خواہ کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو، خاوند  کے ذمہ اس کی کفالت ٹھہرائی گئی ہے۔
بیٹی کی حیثیت بھی عورت کو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا گیا ہے۔ بیٹی کی تعلیم ، تربیت، خوراک، لباس، شادی، بیاہ تمام امور کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے، یہاں تک کہ اس کی وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا گیا اور خوشخبری سنائی گئی ہے کہ جو اپنی بیٹیوں کی اچھی پرورش کرے گا اور شادی کردے گا، وہ جنت کا حقدار ہوگا۔

سبحان الله
بہنوں کے بارے میں بھائی کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی بہنوں کی ناموس کے محافظ ہیں۔ ان کا یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ بہنوں کے ساتھ محبت وشفقت سے پیش آئیں۔ حضور اکرم  ﷺکی دودھ شریک بہن اگر آتیں تو آپ ان کے لئے اپنی چادر بچھادیتے تھے سبحان الله
آئیے! اب ہم عورتوں کے چاروں روپ میں اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ دین اسلام نے جس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا ہم نے اپنے ہی پاؤں تلے روند تو نہیں ڈالا؟ ہم نے اسلام دین فطرت کی حدود کو پامال تو نہیں کیا؟ کیا ہم اپنی ذمے داریاں عورتوں کے  معاملے میں احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟
اللہ تعالیٰ  سب  عورتوں کو اسلام کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :