
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور احترام آدمیت
پیر 27 جولائی 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
جیسا کہ میں نے کہا ، میرا موضوع نیب یا اس کا غلط استعمال نہیں۔
ہم اللہ کے فضل سے ایک اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔ قرآن کریم نے انسانی فضیلت اور احترام آدمیت پر بہت زور دیا ہے۔ انسان کو اگر اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ انسان کے" شرف" اور اس کی عزت کو ہمیشہ اولیت دی جائے۔ ہمارے نبی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی انسان اور انسانیت کی تکریم کو بڑا درجہ حاصل ہے۔ حضور اقدس کو محسن انسانیت کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے رنگ، نسل، قبیلے، ذات اور اس طرح کے تفرقے کو مٹا کر انسانوں کو مساوات سے آشنا کیا۔ ہمارا دین، سراپا انسانیت ہے جو ظلم وزیادتی کی ہر شکل میں نفی کرتا ہے اور احترام آدمیت کو یقینی بناتا ہے۔ انصاف کا جو تصور اسلام نے دیا اور جو عملی طور پر قائم بھی ہوا، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ حضرت عمر فاروق کا مشہور واقعہ ہے جب آپ نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص کو، ان کے بیٹے کی زیادتی پر سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ " تم نے کیوں ان لوگوں کو غلام بنا لیا ہے۔ ان کی ماوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا" ۔اسلامی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسان کی تکریم کا یہ تصور ہمارے ہاں بہت کمزور ہو چکا ہے۔ یہ صرف نیب ہی نہیں جو کسی کو عدالتی سزا سے پہلے ہی جیل میں ڈال دیتا اور پھر مہینوں بلکہ سالوں اسے آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ اس طرح کے شکنجے قدم قدم پر ہیں۔ ایسی باتوں کو ہمارے ہاں معمولات کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور معاشرہ ان قدروں سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے جن کا ذکر عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ درس گاہوں میں خواہ وہ کسی بھی سطح کی ہوں، اخلاقیات کے ان بنیادی اصولوں اور انسانیت کی قدروں کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جب ایک طالب علم سکول سطح کی تعلیم سے فارغ ہو تو وہ جانتا ہو کہ میرے کچھ فرائض ہیں۔ اور یہ فرائض بجا لانے کے بعد ہی مجھے وہ حقوق مل سکتے ہیں جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔جبر یا ذیادتی صرف حکومت یا ریاست کے کارندوں کی طرف ہی سے نہیں ہوتی۔ معاشرے کے دیگر زور آور طبقات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ میڈیا ہی کو لے لیں۔ میں سوشل میڈیا کی بات نہیں کر رہی جو بڑی حد تک مادر پدر آزاد ہو چکا ہے۔ رسمی میڈیا کی مثال لے لیجیے، جو ایک تحریری ضابطہ اخلاق رکھتا ہے۔ لیکن کسی کی پگڑی اچھالتے وقت، کسی کی کردار کشی کرتے وقت، کسی پر الزام عائد کرتے وقت اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ اس خبر کی پوری طرح چھان بین کر لی جائے۔ بعد میں خبر کے غلط ہونے کی صورت میں (جو اکثر و بیشتر ہوتی ہے) اسکی کمزور سی وضاحت یا تردید کر دینے سے اس شخص کی عزت نفس بحال نہیں ہو جاتی۔ جسے جھوٹے الزام یا بہتان کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر تشریف فرما، بڑے بڑے جید صحافی منہ بھر کے اتنا بڑا الزام عائد کر دیتے ہیں کہ وہ زمین و آسمان میں سمائی نہیں دیتا۔
عزت نفس، انسانی وقار ، احترام آدمیت اور شخصی آزادی کی جن روشن قدروں کی طرف پاکستان کی سپریم کورٹ نے توجہ دلائی ہے، انہیں یقینی بنانے کے لئے سب سے موثر اقدام بھی عدالتوں ہی کو کرنا ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدلیہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی باقاعدہ درخواست یا پٹیشن وغیرہ کے بغیر کسی بھی بے قاعدگی کا نوٹس لے سکتی ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ انہی حدوں سے تجاوز کرنے اور شہری کو حاصل آئینی حقوق پامال کرنے والے کرداروں کا کڑا محاسبہ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد جیسے شہر میں کتنے ہی واقعات ایسے ہوئے جن کا سخت نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن نہیں لیا گیا۔ دنیا میں کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے ، جھوٹا الزام لگانے یا کسی بھی طرح کی توہین کرنے کے بارے میں بڑے سخت ضابطے موجود ہیں۔ عدالتیں ان ضابطوں کو یقینی بناتی ہیں۔ الزام لگانے والا جواب دہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے الزام کے حق میں ٹھوس شواہد پیش نہ کر سکے تو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں قانون موجود ہے۔ متاثرہ و لوگ فریاد لے کر عدالتوں میں جاتے ہیں۔ لیکن سال ہا سال ان مقدموں کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ الزام لگانے والا عدالتی بلاوے پر کان نہیں دھرتا۔ ہم نے تو آج تک نہیں سنا کہ غلط اور جھوٹا الزام عائد کرنے یا بہتان باندھنے پر کسی کو کوئی سزا ملی ہو۔ کیا ہی اچھا ہو "احترام آدمیت" کے حوالے سے الگ عدالتیں قائم کر دی جائیں جو کیچڑ اچھالنے والوں کو دنوں یا ہفتوں میں سزا سنا دیں۔ ایسا ہو جائے تو معاشرہ بڑی حد تک اس بیماری سے پاک ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے نکات، معاشرے ، حکومت، ریاست، سیاستدانوں اور میڈیا کے لئے غور و حوض کا بڑا سامان فراہم کرتے ہیں۔ انسان کی عزت محفوظ نہ رہے، اس کا احترام سب سے ارزاں چیز بنا دی جائے، اسکی شخصی آزادی کی کوئی اہمیت نہ رہے تو پھر سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جسکی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو ہو جاتا ہے۔ اور " عزت و وقار" کی وقعت دھول مٹی سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ احترام آدمیت ہمارے دین کا بھی اولیں تقاضا ہے اور دنیا بھر کی مہذب اقوام کے طرز عمل کا بھی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.