قابل سلیوٹ ڈاکٹرز کو گولی

ہفتہ 4 جولائی 2020

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

ہمارے پاکستان میں ابھی کرونا داخل ہی ہوا تھاتب میں نے ایک وکیل صاحب کا کالم پڑھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا کے خلاف جنگ میں ڈاکٹرزاگلے مورچوں کے سپاہی ہیں۔میں ان ڈاکٹر حضرات سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ اپنا خیال رکھیں کیونکہ ڈاکٹرکسی بھی قوم کیلئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ادویات،مشینری ہسپتال سب بیکار ہیں اگرڈاکٹر ز نہیں۔

ڈاکٹر حضرات سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایک ڈاکٹر بننے میں کتنے سال اور کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر ڈاکٹرحضرات اس وبا ء کا شکا ر اسی تیزی سے ہوتے رہے تو پھر اس وباء کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔سرکاری سطح پر ڈاکٹرز کو سلیوٹ پیش کیے گئے۔ موجودہ صورت میں صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ڈاکٹرحضرات نے قربانیاں پیش کی ہیں۔

(جاری ہے)

کرونا کی سب سے بڑی اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ تیزی سے ایک سے دوسرے شخص کو متاثر کر رہا ہے اور پوری دنیامیں کرونا کے مریضوں کاعلاج کرتے ہوئے سینکڑوں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی اموات ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں بھی سینکڑوں ڈ اکٹرز اورنرسزاس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔36کی اموات بھی ہوئی ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہم پاکستانی ڈاکٹرز کو انہونی کر رہے ہیں یا ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں یا جو کام ہم کر رہے ہیں وہ ہمارا کام نہیں ہے۔

حکومت پاکستان نے بھی ان حالات میں جان سے جانیوالے ڈاکٹرز کو شہید کااعزاز دینے کا اعلان کیا ہے مگر شکایت صرف ایک ہے اوروہی پرانی ہے کہ عوام کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ میں صرف جاہل اور ان پڑھ لوگوں کا ذکر نہیں کر رہا(جاہل سے مراد ڈاکٹر یاسمین والا نہیں بلکہ وہ ہے جو ان پڑھ ہے) کیونکہ و ہ لوگ تو پھر کسی حد تک ہماری بات کو سمجھنے کیلئے تیار ہیں مگر ایک خاص اور پڑھا لکھا طبقہ کرونا کی حقیقت سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔

پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں جو واقع ہوا سب نے دیکھا۔ہسپتال میں توڑ پھوڑ،ڈاکٹرز پر تشدد،برا بلا کہنا یہ سب تو ہماری عوام نے اپنا معمول بنا لیا ہے۔ عوام ناجانے حکومت اور ڈاکٹرز کو کیا باور کرانا چاہتی ہے۔ہمارے ہاں 12مہینے اور 24گھنٹے سیاست کا بازار گرم رہتا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرناسائنسی نقطہ نظر کو بالائے طاق رکھ کر خود سائنسدان بننے کی کوشش کرنا۔

(جس میں ہمارے محترم سیاستدان اور صحافی اینکر پرسن دوست شامل ہیں)ڈاکٹرزپر الزام تراشی کرنا کہ موت کرونا کی وجہ سے نہیں ہوئی یہ اب عام اور معمول کی بات ہے۔چند روز قبل محترم مشیر صمصام بخاری صاحب جیسے اچھی شہرت کے حامل کی ٹیلی فون گفتگوسن کر شدیددکھ ہوا جو وہ کسی ڈاکٹر سے کر رہے تھے۔وطن عزیزمیں ابھی کرونا نے قدم نہیں رکھا تھا تو  ٹیلی ویژن پر تمام چینلز نے ملک بھر کے نامور اور قابل ڈاکٹر حضرات کے ساتھ بات چیت اور آگاہی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔

اس سلسلے میں الیکڑانک میڈیا نے ایک دوسرے سے بڑھ کرکام کیا تا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اس بیماری کی تباہ کاریوں سے آگاہ کر دیا جائے مگر عوام نے نہ سمجھنا ہے اور نہ ہی سمجھے گی۔ کرونا سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ پھیپھڑے ہمارے جسم کا وہ عضو ہیں جو ہمارے سر سے لیکر پاؤں تک تمام عضلات کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔

جب پھیپھڑے متاثر ہونگے تو پھیپھڑوں کے علاوہ جسم کے جس عضو کو یہ بروقت اور مناسب مقدار میں آکسیجن فراہم نہیں ہو گی وہ ناکارہ ہو جائے گا۔ وہ ہمارا دل،دماغ،جگر، گردے اور باقی دیگر عضو بھی ہو سکتے ہیں۔ان عضا میں سے کسی ایک کے بھی ناکارہ ہونے سے فوراََ موت واقع ہو سکتی ہے۔ اب اگر کسی شخص کو کرونا ہو گیا تو اس وجہ سے اسے دل کا دورہ پڑا یا دماغ پر اثر ہونے سے موت واقع ہو گئی تو وہاں سیاست شروع ہو جاتی ہے۔

کیا ہم نے چین میں لوگوں کو کرونا کی وجہ سے اچانک سڑکوں پر گر کر مرتے نہیں دیکھا؟کیا ہم نے امریکہ جیسے ترقی یا فتہ اور سپر پاور ملک کے مردہ خانوں کے فرش پر لاشیں نہیں دیکھیں؟ کیا ہم نے وہاں سڑکوں پہ تعفن پھیلاتے تابوت نہیں دیکھے؟ یا ہم نے یورپ،اٹلی اوربرطانیہ میں لاشوں کے انبار نہیں دیکھے؟اس کے باوجود ہم سب کہہ رہے ہیں کہ حکومت جھوٹ بولتی ہے،ڈاکٹرز جھوٹ بولتے ہیں۔

میں نے یہاں کرونا کو بہت سادہ الفاظ میں سمجھانے کی چھوٹی سی کوشش کی ہے۔ میری گذارش ہے کہ خدارا!آپ پیارے پاکستان کو امریکہ اور یورپ بننے سے بچائیں کیونکہ یہ صرف آپ کر سکتے ہیں۔اس کا ابھی تک واحد علاج احتیاط ہی ہے۔احتیاط سے یاد آیا۔کراچی میں ایک ڈاکٹر صاحب نے حساس ادارے کے ملازم کو ماسک پہننے کی تلقین کی تو موصوف نے فوراََگولی مار دی۔

شاید ڈاکٹر صاحب گھر سے ماں کی دعا لیکر نکلے تھے ورنہ تو شیر جوان ان کو گستاخی کی سزا دے چکا تھا۔ اس طرح کے واقعات کے بعد انصاف نہ ملنا اس سے زیادہ تکلیف کا باعث ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا انصاف کے ادارے ڈاکٹرکو انصاف دیں گے یا صرف پیٹی بھائی کو بچایا جائے گا۔ ہم اپنے ملک کے وسائل سے اچھی طرح واقف ہیں اوراس بیماری میں آکسیجن اور وینٹی لیٹر بھی زیادہ کام نہیں کر سکتے۔ 22کروڑ کیلئے یہاں کتنے وینٹی لیٹرہیں وہ آپ مجھ سے بھی بہتر جانتے ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کا مجھے کوئی علم نہیں آپ خود تحقیق کر لیں شاید آپکو حقیقت مل جائے۔بقول شاعر
اب کر کہ فراموش تو ناشادکرو گے
 پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کر و گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :