کیا حق کے لیے بولنا جرم ہے؟

پیر 18 مئی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

آج ایک وڈیونظر سے گذری، جس میں بیرون ملک مقیم ایک شخص پاکستانیوں کو باشن دے رہا تھا کہ ہمارے ملک میں مثبت خبریں نہیں چلاٸی جاتیں بلکہ منفی پروپیگنڈا زیادہ ہے ۔جیسا کہ قتل کا تناسب اور دہشت گردی کا تناسب وغیرہ وغیرہ .ایک جگہ تو ان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم بند گٹر کی تعریف نہیں کرتے بلکہ کھلے گٹر کی فورأ نشاندہی کرتے ہیں۔

جبکہ امریکہ ،سنگاپوراور دبٸی میں منفی خبروں کے برخلاف مثبت خبروں کا پرچار کیا جاتا ہے۔
ویسے سننے میں یہ بھی بڑا اچھا لگتا ہےکہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے ۔یہاں قرضہ نہیں لیا جاتا ۔یہ ایک صاف ستھرا ملک ہے ۔یہاں چوری اور ڈکیتی کا نام و نشان بھی نہیں۔ یہاں کے نوے فیصد بچے اسکولوں میں جاتے ہیں ۔یہاں لوگوں کو بجلی،صحت، پانی اور گیس کی سہولیات میسر ہیں ۔

(جاری ہے)

یہاں سڑکوں کا عمدہ نظام ہے۔یہاں دہشت گردی نہ ہونے کےبرابر ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملکی مساٸل میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کٸی اور بھی  پیچیدہ مسٸلے مساٸل ہیں جو کہ توجہ طلب ہیں۔میری ناقص راۓ کے پیش نظر وہاں کے نظام کا یہاں سے موازنہ کرنا بالکل ہی نا انصافی کے مترادف ہے۔ اگر دیکھا جاۓ تویہاں کے اکثر علاقوں کے لوگ بنیادی سہولیات زندگی کے لیےترس رہے ہیں ۔

کیا امریکہ،سنگاپور اور دبٸی میں ایسا ہی ہے؟
یہاں کے زیادہ تر لوگوں کو میڈیا خاص کر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔ورنہ پہلے تو”سب اچھا ہے“ کا راگ الاپ کر لوگوں کو ملک کی گھمبیر صورتحال سے لا علم رکھا جاتا تھا۔ اب بحث یہ بھی ہے کہ اگر لوگوں کو آگاہی ہو ہی رہی ہے تو کیوں اس کو چھپانا چاہیے ۔ یہاں کے گورنمنٹ اور متعلقہ ذمہ دار محکموں کے ساتھ ساتھ کچھ باثرعوام کی ناقص کارکردگیوں پرکیوں پردہ ڈالنا چاہیے۔


    یہاں کے لوگوں کو سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہی اندازہ ہواکہ ہمارا تعلیمی نظام کتنا پانی میں ہے اور خود پاکستان کاحکمران طبقہ بجاٸے تعلیمی اصلاحات لانے کے اپنے بچوں کو باہر تعلیم دلا رہے ہیں ۔
ہمارا صحت کا نظام کتنا خراب ہے مگر حکمران طبقہ اس کو ٹھیک کرنے کےبجاٸے اپنا علاج کرانے باہر کے ملکوں میں جا رہے ہیں۔ ہمارے دہی علاقوں کی سڑکیں جو سفر کے قابل نہیں ہیں،ان کو صحیح کروانے کے بجاٸے خود جہاز اور ہیلی کاپٹر پر سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔

  ہمارے غریب عوام جن کو ایک وقت کی بھی روٹی میسر نہیں ۔ ان کو روٹی مہیا کرنے کے بجاٸے یہ تلقین کی جارہی ہے کہ  دوکے بجاٸے ایک روٹی کھاٶ اور خود ماشاءاللہ ایک ایک دن کے اشاعیوں پر کروڑوں روپے لٹاۓ جارہے ہیں۔منرل واٹر پینے والے عوام کو یہ تلقین کررہے ہیں کہ زندگی بھر جوہڑوں کا پانی پیو مگر حرف شکایت زبان پر مت لاٶ۔
    بجلی، پانی، گیس اور دوسری انفراسٹرکچر  جیسی بنیادی سہولیات تو کچھ علاقوں میں ناپید ہی ہیں۔

وڈیو میں کچھ بات گٹر  کی بھی چلی تھی۔ تو زیادہ تر دہی علاقوں میں بلکہ اگر ان میں شہری علاقے بھی شامل کردیے جاٸیں تو بعید نہیں کہ یہاں گٹر جیسے لوازمات ضروری ہی نہیں سمجھے گٸے ۔ اور شایداس لیے بھی ضروری نہیں سمجھے گٸے کہ یہاں غریب لوگوں کی کوٸی اوقات نہیں ۔ان کے حقوق، حقوق نہیں ان کی ضروریات، ضروریات نہیں۔ اس کی وجہ  یہ بھی ہےکہ غریب عوام کی کبھی کسی کی بھی نظر میں کوٸی حیثیت ہی نہ رہی ہے ۔

پھر وہ چاہے  آمریت کا دور ہو یا جمہوریت کا۔
لوگوں کو امریکہ، دبٸی اور سنگا پور کی مثالیں دینے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو حب الوطنی کا لبادھا اوڑھے پاکستان چھوڑ کر باہر کےملکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور باہر کےممالک کی قومیت لینے کا کوٸی بھی موقع ہاتھ سے جانےنہیں دیتے۔
میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کی جنگ کے لیے لوگوں کی راہ میں روڑے نہ اٹھکاٸیں۔

نصیحت کرنے کے بجاٸے ان تمام عوامل کی جانب نشاندہی کریں اور ان کو  ٹھیک کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں جن  کی وجہ سے منفی خبریں بنتی ہیں ۔ان منفی خبروں کو مثبت پہلو سے دیکھ کر مثبت اصلاحات لاٸیں تاکہ ایسی خبریں کو جنم لینے کا موقع ہی نہ ملے۔ لوگوں کی زبانوں کو لگام دینے کے بجاٸے عملی اقدامات سے جواب دیں۔تو اس طرح کی خبریں آنا خود بخود بند ہونگی کیونکہ دھواں وہاں اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے تو اس چنگاری کو اٹھنے کا موقع ہی نہ دیں۔


پاکستانی حکومت نے ڈالر مہنگا کرکے جہاں بیرون ملک مقیم افراد کو مالی و معاشی فاٸدہ دیا ہے، وہیں غریب پاکستانی عوام کومہنگاٸی اور اضافی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیاہے۔یہی وجہ ہےکہ بیرون ملک مقیم افراد پاکستان سے کوسوں دوربیٹھ کر ان پاکستانیوں کوس رہے ہی جو اچھے برے کسی بھی حال میں پاکستان سٕے جڑے ہوۓ ہیں ۔مگر ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔مگرخدارا اب ان سے اپنےحقوق کی جنگ کا حق تو مت چھینیے۔ کیامندرجہ بالا سب مسٸلوں کا حل لوگوں سے انصاف کی زنجیر چھیننا رہ گیا ہے؟یا پھر مثبت اقدامات کی جانب پیش قدمی کرنا بھی ایک ممکنہ حل ہوسکتا ہے؟َ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :