"کاش کورونا ڈرامہ ہوتا"

جمعرات 20 اگست 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

کچھ دن پہلے کوئٹہ میں پروفیسر دلشاد قریشی جو ایک انتہائی قابل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ سنڈیمن پروونشل اسپتال شعبہ پیڈز میں  ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھیں, کورونا کے باعث انتقال کر گئیں. میں نے اپنے ہاؤس جاب کے دوران چھ ماہ  ان کے وارڈ میں کام کیا تھا. وہ ایک گریس فل خاتون تھیں جنہوں نے ایک عورت ہونے کے باوجود اپنا ڈپارٹمنٹ نہایت عمدہ طریقے سے چلایا تھا.

اپنے جونئیرز کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ شفقت اور محبت کا رہا ہے.  بچوں میں تو جیسے ان کی جان بستی تھی . ننھے منے مریضوں کی صحت کے متعلق وہ کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتی تھیں . کولیگ کے ساتھ بھی ان کا بڑا دوستانہ رویہ تھا .

(جاری ہے)

ہم نے اپنے ہاؤس جاب کے دور میں ان کے ساتھ ان کے فارم ہاؤس پر ایک بار یاد گار پکنک بھی منائی تھی . ان کی موت نے ہمیں نہ صرف ایک اچھے انسان سے محروم کیا بلکہ ایک انتہائی قابل پیڈیاٹریشن سے بھی .

ان کی موت صرف ان کے گھر والوں کے لیے ہی نہیں بل کہ پورے صوبے کے لیے نقصان کا باعث ہے جس کی تلافی بہت مشکل ہے .
کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈاکٹرز اور باقی پیرا میڈکز فرنٹ لائن پر لڑتے لڑتے نہ صرف خود اس کا شکار بن گئے بلکہ ان کی فیملی کے ارکان  کی بھی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں اور کچھ لقمہ اجل بن گئے. میڈم دلشاد قریشی  اور عظیم  شاعر راحت اندوی سمیت کئی دوسرے لوگ کورونا کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں .

اور پی جی ایم آئی کے ڈین ڈاکٹر شبیر لہڑی آج بھی وینٹیلیٹر پر زندگی اور موت جنگ لڑ رہے ہیں . انہی خطرات اور قربانیوں کے نتیجے میں دوسرے ممالک میں  انہیں ہیرو کا خطاب دے کر سولوٹ کیا گیا اور ہمارے ملک میں  قصائی سے قاتل کے درجے پر فائز کردیا گیا .
   جب سے کورونا اپنا موت اور زندگی کا کھیل عالم اقوام میں رچانے کے بعد پاکستان میں داخل ہوا پے .

باقی ممالک کے برخلاف اس کی پذیرائی پاکستان میں زیادہ جوش و خروش سے ہوئی ہے . باقی ممالک میں اس کی آمد کے ساتھ سڑکوں پر سناٹا چھا گیا مگر ہمارے ملک میں تو جیسے رش پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا . اور لوگ بغیر ماسک اور ایس او پیز کے نہ صرف  ہر جگہ گھومتے نظر آئے  بلکہ کورونا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات  کا مذاق بھی اڑایا گیا اور انہیں ڈرامہ اور سازش سے تعبیر کیا گیا.
میں سوچتی ہوں کہ کیا کورونا واقعی ایک ڈرامہ ہے ؟جس نے لاکھو ں انسانوں کی زندگیاں نگل لیں.

کورونا ایک ڈرامہ ہے, جس نے بہت سے میڈیکل پرسنلز کو موت کی گھاٹ اتار دیا جن میں ہمارے اپنے کولیگ اور سینئر ڈاکٹرز اور ان کے گھر والے  بھی شامل تھے.  کورونا ایک ڈرامہ ہے جس سے بہت سے متاثرہ گھروں میں  ایک یا دو اموات ضرور ہوئیں .اور شاید اس لیے بھی یہ ڈرامہ لگتا ہے ان لوگوں کو جن کے گھروں کی راہ دیکھنا کورونا  شاید بھول گیا ہے . بجائے رب کے شکر گزار ہونے کے کہ اللہ نے ان کے خاندان اور گھر والوں کو اس وبا کے بد ترین  اثرات , پیچیدگیوں اور اموات سے محفوظ رکھا  انہوں نے  نہ صرف کورونا کو مذاق بنا دیا بل کہ اس کے شکار ہونے والے لوگوں کی اموات کو بھی مذاق اور ڈرامہ بنا دیا .

دو بھائی جو ہیلتھ ورکر تھے شاید  انہیں بھی ڈرامہ کرنے کا بڑا شوق تھا . جب ہی انہوں نے کورونا کا ڈرامہ رچانے کے لیے موت کو گلے لگایا.  لی وان لیئنگ جو چین کا پہلا ڈاکٹر تھا جس نے نہ صرف کورونا کے خطرناک اثرات سے آگاہ کیا بل کہ اس  کی موت بھی کورونا سے ہوئی. شاید اس کی بھی شدید خواہش رہی ہوگی کہ ڈراموں میں کام کرے اس لیے اس نے کورونا کا ڈرامہ رچا کر موت کی آغوش میں پناہ لی .

پنجگور کے رہائشی باپ بیٹی بھی یہ ڈرامہ رچاتے رچاتے یکے بعد دیگرے اہک ہفتے کے فرق سے موت کے منہ میں چلے گئے.کاش کہ کورونا ڈراما یا مذاق ہوتا تو بچھڑے ہوئے کئی لوگ آج ہمارے ساتھ ہوتے.
    مانا کہ اس بات میں حقیقت ہے کہ بہ نسبت دوسرے ممالک  کے جن میں امریکہ, برطانیہ, کینیڈا اور اٹلی شامل ہیں جہاں  کورونا کی تباہ کاریاں  زیادہ ہوئیں .

پاکستان اور اس کے علاوہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کی تباہ کاریاں نسبتا کم دیکھنے میں آئیں. لیکن اس کی کافی وجوہات ہیں
اس کی ایک وجہ تو کورونا سے متعلق غلط قسم کی افواہیں اور زہر کا ٹیکہ ہے . جس نے
لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف بٹھا دیا کہ لوگوں نے کورونا کے ٹیسٹ کرانے سے گریز کرنا شروع کیا. گھروں میں ان کی اموات ہوئیں یا پھر AODs( آرائیول آن ڈیتھ) , یعنی اسپتال پہنچنے کے ساتھ ہی ان کی ڈیتھ ہوئیں.

اور وہ ریکارڈ میں نہیں آسکیں .
اس کے علاوہ ایک اسکول آف تھاٹ یہ بھی ہے کہ بی سی جی کی ویکسینیشن کروانے والے علاقوں میں کورونا کے مہلک اثرات انتہائی کم دیکھنے میں آئے  جن میں ایشیائی ممالک بشمول جاپان شامل ہیں.
ساتھ ہی قوت مدافعت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو تیسری دنیا کے لوگوں میں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت  گوروں کی نسبت زیادہ ہے .

یہاں لوگوں میں  دیگر  بیکٹیریل اور وائرل بیماریاں ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے ان بیماریوں  کے خلاف لوگوں میں ایمیونٹی بھی اسی حساب سے ہے . جب کہ اٹلی , فرانس اور امریکہ جیسے ممالک میں ان بیماریوں کے خلاف  قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے مسئلہ  اکثر و بیشتر  سنگین صورت حال پیدا کر سکتا ہے اور اموات بھی ہو سکتی ہیں .
ایک اور بات جو توجہ طلب ہے وہ یہ کہ  ڈاکٹروں کو قصاب کہنے والوں کو  اپنا چہرہ  نظر نہیں آتا جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے.

انجکشن ایکٹمرا کو دو ہزار سے پچاس ہزار فی انجیکشن کیا, ڈیکسامیتھاسون کو سو روپے سے دس ہزار تک پہنچایا , ایزومیکس,  اور کورونا میں اثر دکھانے والے اس جیسے دوسری دوائیوں کی قیمتیں آسمان تک پہچا دیں , اس کے علاوہ ثنا مکھی, لہسن اور پیاز  کی کورونا میں افادیت کا سن کر ان اشیاء کی قیمتیں بھی آسمانوں تک پہنچائیں . اور تو اور گھروں میں غیر معیاری ماسک بنا بنا کر اور سڑکوں پر کھلے عام مختلف قسم کے جراثیم سے ایکسپوز کراکر بیچنا شروع کردیں. اگر ڈاکٹر قصاب ہیں تو وہ لوگ بھی قصاب ہیں جنہوں نے چند ڈالز کے لیے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کے لیے راہ ہموار کیے
اور وہ سب بھی قصاب ہیں جنہوں نے وبا کی آڑ میں اپنے اپنے کاروبار چمکائے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :