"سیرت نبوی ﷺ اور انتہا پسند کفار کی نفرت"

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

ہر سال  محمد ﷺ کی شان میں گستاخانہ, نفرت آمیز خاکے سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہیں یا  قرآن پاک کو جلا کر  ذہنی پسماندگی کا شکار انتہا پسند کفار اپنی کیفیت کا  اصل نمونہ پیش کرتے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دے کر  مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے. مسلمانوں کا جوش ایمانی کچھ وقت کے لیے ابھرتا ہے اور معافی تلافی کے بعد یہ سلسلہ وقتی طور پر رک جاتا ہے.  کبھی ناروے, کبھی سویڈن, کبھی ڈنمارک اور اب ایک بار پھر یہ اسلام مخالف مذموم حرکت فرانس کی جانب سے ہوئی ہے .

گورنمنٹ نے افسوس کے اظہار میں چند جملے بول کر مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے.  باقی مسلم ممالک کی جانب سے بھی کم و پیش یہی رویہ سامنے آیا ہے.  بات بالکل واضح  ہے کہ وہ کیوں خاموشی اختیار نہ کریں. ان ممالک سے  ان کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں , ملکی اور ذاتی  مفادات جو وابسطہ ہیں. اس کی حالیہ مثال اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے . اس سلسلے میں متحدہ عرب عمارات اور سوڈان نے تو ابتدا کردی ہے مگر سعودیہ اور پاکستان انتظار میں ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے .
     حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کوئی پہلی بار نہیں ہورہی ہے.

یہ امر مسلمہ ہے کہ جو شخص جتنا سچا, کھرا اور منافقت سے پاک ہوتا ہے اس کے دشمن بھی اتنے ہی ہوتے ہیں. نبی کریم ﷺ کا برداشت اور  حوصلہ اتنا  زیادہ تھا کہ لوگ سامنے آپ ﷺ کی برائیاں کرتے اور آپ ﷺ اپنے بہترین  حسن سلوک سے انہیں جواب دیتے. اس کی مثال کوڑا پھینکنے والی بوڑھی  عورت تھی جس کی  غیر موجودگی نے آپ ﷺ کو پریشان کردیا.  آپ ﷺ اس کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر گئے.اس رویے نے اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا.

آپ ﷺ تو سرتا پا رحمت تھے جس نے فتح مکہ کے وقت ابو سفیان کی بیوی ہندہ کو بھی معاف کردیا جس نے  نفرت کی آگ میں غزوہ عہد میں  رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ کے کلیجہ چبایا تھا .
        حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کو تنگ نظری کا لقب دینے  والوں کے لیے ایک ہندو مفکر اور شاعر اچاریہ پرمودکرشن کا کہنا ہے کہ جو چیز جتنی سخت اور تنگ ہوتی ہے وہ سکڑتی ہے .

اور اسلام اپنے آقا کی عالی شان  وسیع النظری کے باعث سکڑا نہیں بلکہ پھیلا ہے . نبی کریم ﷺ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری عالم اقوام کے لیے خاتم النبیین اور رحمت العالمین  بن کر اس دنیا میں اتارے گئے .اچاریہ نے اپنے ایک شعر میں کیا خوب کہا ہے.
  سمجھ کر تم فقط اپنا، انہیں تقسیم نہ کرنا
نبی ﷺ جتنے تمھارے ہیں نبی ﷺاتنے ہمارے ہیں
مگر آج ہم کہاں جارہے ہیں ؟ کیا یہ وہی رستہ ہے جس کی تعلیم ہمیں ملی تھی.

ہمیں وہ راہ نجات کیوں نظر نہیں آتی جو ہمارے لیے بحیثیت مسلمان لاگو کی گئی. یہ وہ تعلیمات تو نہیں ہیں کیونکہ ہماری محبت محدود ہوگئی ہے, بارہ ربیع اول کو جشن عید میلاد النبی منانے  یا چند دن  توہین نبوی ﷺ کی مذمت کرنے تک. اس کے بعد ہم سب بھول کر اپنی فضولیات و لغویات میں لگ جاتے ہیں .ہم تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بحیثیت مسلمان اسلام, توہین رسالت اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں .

جی ہاں ہم ,شیعہ ,سنی , بریلوی ,اور اہل حدیث اور کئی دوسرے فرقے بنا کر اپنی الگ الگ مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں . کیا اس طرح ہم اپنی مشترکہ شناخت اور حیثیت کو نفرت کی نذر کرکے اسلامی تعلیمات کی توہین  کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں؟؟  ہم پانچ وقت کی نماز کے بلاوے کے باوجود نماز نہیں پڑھتے اور سجدہ نہیں کرتے تو ہم شیطان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں.

کیونکہ شیطان نے بھی تو سجدے سے انکار کیا تھا, تو کیا ہم توہین کے مرتکب نہیں ہوتے؟؟.
آج ہمارے لیے ہمارا لیڈر اور اس کے اصول زیادہ اہم  ہیں. اس کے لیے ہم پوری زندگی داؤ پر لگا سکتے ہیں. مگر اسلام اور نبی ﷺ کی تعلیمات ثانوی ہیں. جب کہ ایمان کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک محمدﷺ کی ذات ہمارے لیے سب سے مقدم نہ ہو.
ہمیں عمرے کی سنت تو یاد ہے مگر اپنے بھوکے پڑوسی کا علم نہیں.

ہمیں جشن میلاد منانا تو یاد ہے مگر تعلیمات مصطفوی ﷺ بھول چکے ہیں .
ایک روایت کے مطابق ابولقاسم محمد بن عبداللہ بارہ ربیع الاول 571ء یا 570ء میں مکہ میں پیدا ہوئے. یہاں یہ امر مسلمہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی تاریخ پیدائش میں اختلافات ہیں کہیں پر بارہ کہیں پر دو اور کہیں آٹھ ربیع الاول درج ہے . اور نبی آخر زمان ﷺ کی رحلت بارہ ربیع الاول کو ہے.
اس تناظر میں اگر دیکھیں تو کیا ہم بارہ ربیع الاول کو محمد ﷺ کو پیدائش کی خوشیاں منا رہے ہیں یا  کی رحلت کی؟؟؟.                      
    آپ ﷺ کا یوم ولادت جشن عید میلاد النبی ﷺ کے نام پر بہت جوش اور جذبے سے منایا جاتا ہے .

ملک بھر کی گلیوں اور محلوں کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے. شان مصطفی ﷺ میں مختلف مقامات پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور عقیدت مند دور دور سے ان تقاریب میں شرکت کے لیے آتے ہیں . رسول اللہ ﷺ جن کا ظہور سارے پیغمبروں کے بعد ہوا اور ان پر ختم نبوت کی مہر ثبت کی گئی . لیکن در حقیقت آپ ﷺ کی ذات اقدس  کے لیے یہ کائنات بنائی گئی اور یہ خوشخبری بھی تب ملی.
ترجمہ: ( آل عمران, 3 : 81)
"اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں".
    حضرت آدم علیہ السلام جب غلطی کے مرتکب ہو کر جنت سے نکالے گئے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے معافی مانگی.

ایک حدیث میں ہے کہ,
"حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ پاک نے پیدا  کیا تو انہوں  نے عرش کے نیچے کلمہ لکھا ہوا دیکھا،  انہوں  نے اللہ سے  پوچھا  کہ یہ محمد ﷺ کون ہیں؟  تو اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ تمہاری اولاد میں سے ہوگا۔

(جاری ہے)

۔۔‘‘
اگرچہ کہ کئی محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے . مگر سورت عمران کی درج بالا آیت سے اس بات کو تقویت ملتی ہے .
    آپ  ﷺ کی ذات اقدس صرف مسلمان ہی نہیں پورے عالم کے لیے راہ حیات, راہ نجات اور ہدایت کا سرچشمہ ہے.

سنت نبوی ﷺ کی  پیروی میں ہی دونوں جہاں کی کامیابی کا راز مضمر ہے . آپ ﷺ کا چلنا ,پھرنا ,اٹھنا, بیٹھنا, باتیں کرنا , دین کے احکامات کی پابندی , نماز اور  روزہ غرض ہر بات میں ہدایت ہی ہدایت ہے .
   آپ ﷺ  کی پیدائش خود ایک معجزہ ہے.
حضرت بی بی آمنہ سے منقول ہے کہ جب محمد ﷺ  جب مادر شکم میں تھے تو  بادل کا ایک ٹکڑا مجھے اپنے سائے میں رکھتا تھا .
ابن سعد سے روایت ہے کہ  حضرت بی بی آمنہ نے فرمایا "جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے"۔
    روایت ہے کہ ایونِ کسرٰی کے 14 کنگورے گر گئے, مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا, بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اس کے گرجے منہدم ہو گئے.

اسی سال قریش میں  شدید ترین قحط اور تنگ دستی کی صورت حال تھی, جس نے انسان, جانور اور فصلوں کو بہت نقصان پہنچایا مگر ہمارے نبی ﷺ کی آمد پر بارش ہوئی اور قحط  ختم ہوگیا. اسی خوشی میں اس سال کو قبیلہ قریش نے "سنۃ الفتح والابتہاج" کا نام دیا.
   ان تمام رویات کی روشنی میں کیا نبی کریم ﷺ کی آمد کے جشن کو صرف ایک دن منانا  چاہیے ؟؟؟ نہیں بلکہ پوری زندگی منانا چاہیے کیونکہ انہی کی بدولت ہی آج ہم بت پرستی سے نکل کر ایک رب کے پیرو کار بنے ہیں.

انہی کے دم سے جہالت کے اندھیرے مٹ چکے ہیں . مگر کیا صرف گھر اور گلیاں سجا کر ہم یہ حق ادا کر پائیں گے ؟؟؟ نہیں  ہمیں نبی پاک ﷺ کی  تعلیمات  کی روشنی میں  نفرت اور فرقہ واریت کی دیوار کو توڑنا ہوگا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے  پکڑ کر کفار کی سازشوں کے آگے ڈھال بننا ہوگا. ہمیں ان کی تعلیمات کا عملی نمونہ بننا ہوگا
جس دن ہم سنت نبوی کی پیروی کریں گے اس دن کسی بھی کافر کو مسلمانوں کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی.
تم آئے تو جہاں بھر میں سویرا کر دیا تم نے
میرے آقا اندھیرے میں اجالا کر دیا تم نے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :