"ویلنٹائن ڈے اور مسلمان"

اتوار 14 فروری 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں ہم نے ہر چیز کے لئے ایک دن مقرر کیا ہے اور اس کام کو صرف اور صرف اسی دن کے لئے مخصوص کردیا ہے.  کبھی ہم دنیا کے مقدم رشتے ماں کو ایک دن دیتے ہیں  اور سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر ماں کی محبت میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور سال کے تین سو پینسٹھ  دن ماں کو نہیں پوچھتے. اسی طرح کبھی باپ کی محبت ایک دن کے لئے جاگتی ہے تو باپ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے جاتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کے اس عظیم ہستی نے کس طرح قربانیاں دے کر ہمیں آ گے بڑھایا ہے. کبھی عورتوں  کے دن کی مناسبت سے عورتوں کے اوپر ظلم و ستم کا رونا روتے ہیں. اور عورتوں کو اتنا زیادہ مظلوم و مجبور بنا کر پیش کرتے ہیں کہ خود عورتوں کے حقوق سلب کرنے والی عورتیں بھی شرما جاتی ہیں.  کبھی کوئی بیماری ایک دن کے لئے منائی جاتی ہے اور کبھی کچھ تو کبھی کچھ. اور تو اور ہم نے نیا وطیرہ بنا لیا ہے کہ پورے سال لوگوں کی حق تلفی کریں گے.  انکو تکلیف پہنچائیں گے. ان کی دل آزاری کریں گے اور اس ایک دن سب سے معافی تلافی کرکے اگلے دن پھر  پرانے محاذ پر ڈٹ جائیں گے.  کیا اللہ تعالی نے اسلام کو صرف ایک دن کے لئے مخصوص کیا ہے .کہ صرف ایک دن عبادات کرو معافی تلافی کرو اور اگلے دن اپنی پرانی معمولات زندگی پر واپس آ جاؤ.  نہیں اسلام,  عبادات زندگی, ایک دوسرے کے حقوق اور اپنے فرائض ہمیں پورے سال یاد رکھنے چاہئیں اور ان کی پاسداری کرنی چاہئے. اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری وجہ سے  کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو. اسی میں ہماری دنیاوی کامیابی کا راز ہے اور آخرت کی کامیابی کا بھی.
جب ہم چھوٹے تھے تو کچھ دن اپنے مخصوص تاریخ کی وجہ سے ہمیں ازبر تھے.  اور ہم ان مخصوص  ایام کا انتظار سال کے شروع ہوتے ہی کرتے تھے کیونکہ وہ دن اسکول کی چھٹیوں سے بھی وابستہ ہوتے تھے یا پھر ان دنوں میں اسکول میں خاص تقریبات کا انعقاد بھی ہوتا تھا.  ان میں یوم پاکستان، یوم اقبال، یوم قائد اور یوم عیدین , شب برات , شب معراج,  شب قدر  وغیرہ ہوتے تھے اس کے علاوہ ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ زندگی میں اور بھی کئی دن ہیں جو منائے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر ذاتی حوالے سے کوئی خاص دن ہوتا تو آپس میں محبتوں کا، رویوں کا اور خلوص کا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  مشینی دور نے انسان کو اپنے شکنجے میں برے طریقے سے جکڑ لیا اور اس پر انٹر نیٹ نے اپنی مہر لگالی . اسی انٹرنیٹ نے ہمیں مختلف دنوں کی مقبولیت سے بھی آشنا کرایا۔ سال کے تین سو پینسٹھ ایام کو   مختلف  دنوں سے تعبیر کیا جانے لگا۔ روز صبح اٹھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ،آج ماں یا باپ کا عالمی دن ہے، آج بہن یا بھائی کا عالمی دن ہے، آج محبت کرنے والوں کا عالمی دن ہے، آج ٹی بی، ایڈز ، کینسر , تھیلیسیمیا یا یرقان کا عالمی دن ہے . یوم چاکلیٹ ہے یا پھر یوم  سیاہ و سفید ہے ۔

ہر روز ایک نیا عالمی دن ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ اگر نہیں ہے توخلوص، محبتیں یا پھر پرانے لوگ اور ان کی عزت ۔ بس دنیا چند دنوں کی محتاج ہو کر رہ گئی  ہے .اور تو اور بچے بھی صبح ڈھنگ کے حلیے میں اسکول جاتے ہیں مگر جب چھٹی کے دن واپس آتے ہیں تو ان کے گال یا تو مینگو ڈے کی علامت کے طور پر پیلے ہوتے ہیں یا وہ چلتا پھرتا خربوز یا تربوزہ ہوتے ہیں یا مون ڈے اور سن ڈے کی علامت کے طور پر سورج یا چاند بن کر واپس آرہے ہوتے ہیں.  ان سب دنوں کا بوجھ بے چارے ماں باپ کی جیب پر پڑتا ہے.
جہاں تک بات ہے ہم پاکستانی قوم کی تو دوسری اقوام کی اندھی تقلید میں بھلا ہم کہاں پیچھے رہنے والے ہیں ۔

کیونکہ ہم دوسرے اقوام کی پیروی کرکے ہی ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور حالات حاظرہ پر ہماری بھرپور نظر ہےورنہ  تو جاہل تصور کیے جاسکتے ہیں. پھر چاہے ہم بسنت کا تہوار منا کر کتنے ہی معصوم لوگوں کی گردنیں کیوں نہ کاٹیں, مگر اپنے شوق سے پیچھے ہٹنا ہمیں گوارہ نہیں. ہندوؤں کے تہوار ہولی کے دنوں میں اگر رنگ نہیں  لگایا تو کہیں باقی دنیا والے ہمیں جاہل نہ سمجھ لیں, اس لیے اس رسم  کو ہمارے سیاست دان بھی بڑے شوق اور جذبے سے مناتے ہیں ۔

کرسمس جو عیسائیوں کا تہوار ہے اسے بھی موقع ملنے پر منانے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ پچیس دسمبر کو یوم قائد بھول جاتا ہے مگر کرسمس ڈے یاد رہتا ہے. ہم ایک دوسرے کو کرسمس کی اصل حقیقت سمجھے بغیر  ہیپی کرسمس کہہ رہے ہوتے ہیں. رہی بات ویلنٹائن ڈے کی جو کہ ایک عالمی تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اسے منانے میں پھر بھلا کیوں سستی دکھائیں اور یہاں تو بات ہی محبت کی ہے جو ہمارے رگوں میں دوسروں سے زیادہ ہے.
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بات کی جائے تو پہلے اس کی حقیقت سے آشنا ہونا ضروری  ہے . ویلنٹائن  ڈے ، محبت کرنے والوں کا دن بھی کہلاتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ایک رومی تہوار لوپر کالیا ہے۔ جس میں چودہ فروری کے دن محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کو کارڈ  پھول اور تحفے دیتے ہیں۔  لڑکے اپنی دوست لڑکی کا نام اپنے کلائی پر لکھتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دن سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی زندگی کا ہمسفر تلاش کرتے ہیں ۔ اسے سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منسوب کرنے کے پیچھے ایک انتہائی نازیبا اور مذموم کہانی ہے ۔

جس کی رو سےایک مسیحی راہب جو اپنی نن کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا ۔ راہب اور نن ہونے کی وجہ سے وہ دونوں شادی نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ راہب نے اپنی نن سے ناجائز ملاپ کے لیے جھوٹے خواب کا ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے مذموم عزائم پورے کیے۔ اس کے بعد ان دونوں کو قتل کیا گیا اور ان دونوں کی یاد میں اکثر بے راہ رو نوجوان یہ دن منانے لگے اور ہم ان کی اندھی تقلید میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے ہیں ۔

ایک صورت میں اگر اسے خونی تہوار کہیں تو بےجا نہ ہوگا کیونکہ اس کی تاریخ میں جہاں اگر سینٹ اور نن کا خون ہے، وہیں رومی بادشاہ کلودیوس نے لوگوں کو جنگ جانے پر ابھارنے کے لیے شادی پر پابندی لگائی تو مسیحی راہب ویلنٹینس نے خود خفیہ شادی کی اور ساتھ ہی دوسروں کی بھی خفیہ شادیاں کروائیں اور حکم کی خلاف ورزی کی پاداش میں اسے بھی پھانسی ہوئی۔

۔
بہرحال ہم مسلمانوں کے لیے اسلام خود ایک راہ حیاتِ ہے اور ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم دوسری قوموں سے متاثر ہوں اور ان کے عقائد مستعار لیں۔ کیونکہ غیر اسلامی عقائد کی پیروی اسلام میں سختی سے منع ہے. قران میں اللہ تعالی فرماتے ہیں.
ترجمہ: ہم نے ہر ایک کے لئے شریعت اور منہج بنا دیا ہے۔ المائدۃ/48
ایک اور جگہ فرمایا ہے :
ترجمہ: ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس پر وہ چلتے ہیں۔

الحج/67
مذہبی رو سے اگر دیکھا جائے تو  صرف اسلام میں ہی نہیں، مسیحی مذہب میں بھی اس کی سختی سے ممانعت کی گئی  ہے۔ دونوں مذاہب میں اسے جنسی بے راہ روی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر آج باقی مذاہب کے لوگوں کو تو چھوڑو مسلمان بھی اس دن کو منانے اور اپنی بات کی دفاع کے لیے دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں محبت کی مخالفت کیسی؟ یا یہ کہ ضروری نہیں یہ محبت  لڑکا لڑکی کی ہو ۔

یہ میاں بیوی کی  بھی ہوسکتی  ہے، ماں باپ  اور بہن بھائیوں کی بھی ہو سکتی ہے. ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے عرض ہے کہ، ایک ایسے دن میں محبت کے رشتے کو منانا جو کہ مذموم ماضی رکھتا ہے، درست نہیں۔ جہاں تک لڑکا لڑکی کی محبت ہے تو اس کی ہمارے مذہب میں ویسے بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اگر بات باقی رشتوں سے محبت کی ہے تو ان کے لیے تین سو پینسٹھ دن ہیں جن میں ایک دوسرے کو اپنی محبت اور خلوص  کا یقین  دلایا جاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :