بے نور چشم گھمسان کا رن

پیر 4 جنوری 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ملک کی سیاست پہ کیا بات کی جائے ۔ برستی گولیوں میں آگ کا دریا ہے جسے پار کرنا اک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے- اسلام آباد  کا اسامہ ستی ہو یا  روز کی لوٹ مار ہر سطح پہ جاری  ہے- سر شام ہی ایک پستول دکھا کر  غریب  دوکاندار کی  سارے دن کی جمع پونجی اپنی جیب میں منتقل کرنے والے ایک سے دومنٹ لگاتے ہیں  اور ان کے محافظ تحفظ فراہم کرنے کی بجائے انہیں ہی اپنا تختہء مشق بناتے ملزم گردانتے ہیں  اسی کے گرد گھیرا تنگ کئے ہوئے ہیں ۔

میرے شہر میں ہر شام ایسی کئی وارداتیں ہو گزرتی ہیں لیکن ڈاکو ہیں کہ چھلاوے قانون کو نظر نہیں آتے یا یوں کہوں کہ  قانون کی اک بے نور چشم ہے اور گھمسان کا رن ہے جس میں بیگناہ نشانہ بنتے جارہے ہیں۔  ملک اسمبلیوں کی بجائے صدارتی آرڈیننس  پہ چل رہا ہے۔

(جاری ہے)

لوٹ کھسوٹ کا میلہ سجائے چینی بجلی گیس اور پٹرول کے تاجر کابینہ کا حصہ ہیں اور سجی میز پہ وہ وہی کچھ دکھا رہے ہیں جو ملکی سربراہ دیکھنا چاہ رہے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ ایوب خان کے لئے ایک علیحدہ اخبار چھپتا تھا لیکن اب تو یہ لگتا ہے کہ الگ اخبار چھپے نہ چھپے پڑھنے والا ہی بے نور ہے تو  اسے سزب ہی سبز نظر آ رہا ہے ۔یوں  لگتا ہے کہ نظام کوئی بیٹھا باہر سے چلا رہا ہے جس کی عوام میں نہ جڑیں ہیں نہ ان کے مسائل کا حل ہی- وہ لٹے پھٹے ملک میں نظام مغرب کا چاہتا ہے لیکن عوام کو زندگی کی صبح سے شام کرتے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

حکومتی ادارے بے بس اور کچھ بے لگام بھی ہیں۔ ریاست کی رٹ بری طرح متاثر ہے اسی لئے تو کبھی کوئی کہتا ہے کہ نیازی کو گرانا کہاں مشکل ہے اور کوئی اداروں کو جوتے کی نوک پہ لکھتا ہے اور  انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلانے کی دھمکیاں دیتا ہے  اوراپنے اثاثوں کی جوابدہی کے لئے اداروں کے سامنے پیش ہونے سے انکاری ہے ۔ قانون کے شکنجے میں وہی ہے جس کی کہیں نہیں چلتی- صبح سے شام تک ایک دشنام طرازی کا عنواں بنی پریس کانفرنسز جاری ہیں جن کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں بلکہ اس جنگ کو اور ہوا دینا ہے جس سے پھیلی  آگ سب کچھ جلا رہی ہے۔

اب تو عوام ان الزامات سے لاتعلق ہوتے جاتے ہیں جو ایک دوسرے پہ لگائے جارہے ہیں۔ انہیں اس سے کیا کہ کون آ رہا ہے کون جا  رہا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کو چشم نا بینا نہ دیکھ پا رہی ہے اور نہ تدارک کر پا رہی ہے۔ اپنے زمانوں میں گولیوں سے سبق سکھانے والے جب عوام پہ چلتی گولی پہ تڑپتے ہیں تو ایک حیرت ہوتی ہے ۔ اپنے روز کے بیانات میں ان اداروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ملک کی حفاظت میں جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔

  وہ جن کے کیوی فروٹس روزانہ کی بنیاد پہ آسٹریلیا سے لائے جاتے تھے اور اب وہ  ٹماٹر آلو  اور دوائی کی قیمت کے صدمے اپنے دلوں پہ جھیل رہے ہیں۔  ملک چلانے والے کب اپنا بریف کیس سنبھالیں اور امریکہ و لندن کی راہ لیں کسی کو بھی پتہ نہیں ہے۔ وزیروں کا کام تو اس جنگ میں روزانہ وہ پٹاخے چھوڑنا ہے جس سے باہمی فضا مکدر ہو رہی ہے۔ میں کسے الزام دوں ہر کوئی دیہاڑی لگانے بیٹھا ہے اور دیہاڑی لگا رہا ہے۔

یہ مال سرکاری اداروں میں تو نچلے درجے سے شروع ہو کے اوپر کے ہر درجے تک حصہ بقدر جثہ  پہنچ رہا ہے ۔ کاش کو ئی صاحب بصیرت ہوتا تو دیکھتا کہ کون کون شام کو پھل ، شہد اور گوشت کے کھابے اڑاتا سوتا ہے اور کون پانی کی دیگچی چولہے پہ ابلتی رکھ کے بچوں کو سلاتا ہے- عوام کا حکمرانوں اور ملکی حالات سے لا تعلق  ہونا کسی بھی حاکم کے لئے نیک شگون نہیں ہے- یہ بے تعلقی ایک دن حاکم کو فالتو بنا دیتی ہے جس کا مظاہرہ ہم اپنے ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ کیسے جب بیمار کی نبض پہ پڑا  ہاتھ مرض کو جان نہیں پاتا تو اپنے مسیحا ہونے کی تمام اہمیت کھو دیتا ہے۔

وزیر اعظم صاحب عوام سے آپ کا رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے اور یہ رشتہ ایک دن آپ کی کہی ہر بات کو غیر اہم کرتا آپ کو اس حد تک غیر مقبول کر دے گا کہ  آپ سے پھر نہ باندھا جائے گا- پنجاب  میں امن و امان کی وہ کیفیت ہے کہ جب کوئی بیگناہ جنازہ اٹھتا ہے تو  لوگ کلمہ کے ورد کو بھول کے آپ کو صلواتیں سناتے جاتے ہیں اور میت قبر میں اتارتے جاتے ہیں۔ ملکی دارالحکومت  میں بند سرینگر ہائی وے کہیں آپ کی راہیں نہ بند کر دے اس سے پہلے اپنی عوام سے جڑ جائییے۔

پیٹ کوئی اعشاریے اور کوئی جی ڈی پی نہیں دیکھتا اس کی نظر بھوک اور پھرگیس بجلی کے ان بلوں پہ ہوتی ہےجن کو دیکھ کے چڑھے چکر  سارا دن ختم ہونے کانام نہیں لیتے اور ان کی ادائیگی کے لئے ایک پیٹ دوسرے کی گردن کاٹتا جاتا ہے- وزیر اعظم صاحب کبھی آپ نے رات اٹھا بھوک کا درد پیٹ میں محسوس کیا ہے جو شب بھر سونے نہیں دیتا اگر نہیں تو کبھی اپنی عوام میں بھی ایسی ایک رات گزارئیے۔

آپ کہتے ہیں اڑھائی سال لگے آپ کو حکومتی امور کو سمجھتے ہوئے لیکن کبھی اس کی بھی سنیئے جسے بچپن سے لے کر آج تک اپنے گھر کو با احسن چلانے کا گر نہیں آیا – عوام اپنی اولاد کاندھوں پہ اٹھائے جناز گاہ پہنچا رہی ہے اور جب غم کی شدت اس نہج تک پہنچ جائے تو پھر کوئی صدمہ اس کے دل میں اٹھنے والے انتقام کی آگ نہیں بجھا سکتا – اپنے ماتحت اداروں اور پولیس کو تربیت دیجئے ۔

بغیر تربیت کے خود کار اسلحہ کی فراہمی کا نتیجہ وہی ہے جو آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور ہم بھی ۔ مجھے تو کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ یہ ملک اتائیوں کے ہاتھوں چل رہا ہے جن کا مقصد خانہ پری تو ہو سکتا ہے لیکن خدمت نہیں۔ چمن میں بے نور نرگس کی بجائے اسے کوئی دیدہ ور بھی دیجیئے جو چمن کو سنبھال سکے نہیں تو جب یہ چمن اجڑے گا تو آپ کی بٹھائی عندلیبیں اڑ جائیں گی اور پیچھے رہ جائے گی انارکی۔ صاحب حیثیت کی بیماری پہ کبھی آپ کا دل پسیج جاتا ہے تو کبھی اداروں کا لیکن اس ملک کا اثاثہ یہ بھوکی ننگی قوم ہے جس پہ کوئی رحم نہیں کھاتا۔ گھمسان کے اس رن میں ان کو سامنے لائیے جن کی آنکھیں کل بھی دیکھ سکیں اور آج کو بھی سنوار سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :