صرف معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے

پیر 11 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ہمارے معاشرے کی روایات میں سے ہے۔ ہم اکثر جنازوں میں شریک ہوتے ہیں، میت کے روتے ہوئے لواحقین سے ملتے ہیں، بعد میں بھی دعا کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں اور انھیں افسردہ پاتے ہیں، لیکن کیا آپ میں سے کسی نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ اس سارے عمل کے دوران ہماری آنکھوں میں آنسو نہیں آتے ، الاّ یہ کہ مرنے والے سے ہماراکوئی قلبیتعلق ہو یا قریبی رشتہ داری ہو۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس وقت ان کیفیات سے نہیں گزر رہے ہوتے جن سے مرنے والے کے قریبی عزیز گزر رہے ہوتے ہیں۔ہاں جب ہمارا کوئی اپنا قریبی عزیز اس دنیا سے جاتا ہے، تو ہم بھی ویسے ہی روتے ہیں، ویسے ہی افسردہ ہوتے ہیں، لیکن تب دوسرے لوگوں کا رویہ بھی بلکل ہماری طرح ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اس طرح کسی جگہ آگ لگ جائے تو ہم اس کو دور سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں یا دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب یہ آگ بجھے گی۔

اگر کسی جگہ کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے اور ہم وہاں سے گزر رہے ہوں، تو عمومی طور پر یا تو بس ایک سرسری نظر ڈال کر گزر جائیں گے یا زبانِحال سے دو تین افسوس کے کلمات کہہ کر اور اللہ کی پناہ طلب کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسے مواقع پر دوسروں کی مدد کے لیے رکتے ہیں۔ ایساکیوں ہوتا ہے ؟ اس لیے کہ جس کی جگہ پر آگ لگی ہے یا جس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اور اگر خدانخواستہ ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہوجائے تو باقی دنیا کا بھی ہم سے وہی رویہ ہوتا ہے جس کا ایسے مواقع پر ہم خود اظہار کرتے ہیں۔
محترم وزیرِاعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کا اعلان کیا ہے۔لیکن یہ عملاً اسی نرم لاک ڈاؤن کی شکل ہے جس کا مظاہرہ ہم پہلے دن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور جس پر ہم لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، کسی بھی کالم نگار کا کالم پڑھ لیں، سوشل میڈیا کو دیکھ لیں، ہر جگہ لاک ڈاؤن کی اندھا دھند خلاف ورزی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ٹریفک دیکھیں تو گاڑیوں کا اژدھام سڑکوں پر رواں دواں ہے، بازار دیکھیں تو لوگوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے ہیں،بینک دیکھیں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی،ہوٹلوں پر لوگوں کا جمِغفیر موجود ہوتا ہے،الغرض لاک ڈاؤن کا تو بس نام ہی ہے، عملاً ماسوائے شادی ہالز،سینما، بڑے بڑے مالز، اور کپڑے جیولری وغیرہ کی دکانوں کے باقی سب کاروبارِزندگی مکمل طور پر چل رہا ہے اور یہ سب کچھ حکومتِ وقت کی رضامندی اور اجازت سے ہو رہا ہے۔

ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حکومت سب کاروبار کھول کر لوگوں سے احتیاط کی اپیل کر رہی ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے اور ایسے لاک ڈاؤن کا قطعاً کوئی فائدہ نہ ہوا ہے اور نہ ہو گابلکہ الٹا کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور صرف کل یکم رمضان المبارک کو ملک بھر میں 1500 کے قریب نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ اب تک پاکستان میں کسی بھی ایک دن میں اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

آنحضرت نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی رعیت ہے، اور کل بروزِ قیامت اْس سے اْس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔پاکستان کو ریاستِمدینہ بنانے کی دعوے دار حکومت کے احمقانہ فیصلوں سے جس بڑی تعداد میں لوگ اس وبا سے متاثر ہو رہے ہیں اور اس کا شکار بن رہے ہیں، یقیناً اس سب کا جواب انھیں دینا ہوگا۔
ابھی گزشتہ روز بھی جمعہ کی نماز میں جابجا احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی نظر آ ئی۔

اگرچہ کئی جگہ ان پر عمل بھی کیا گیا لیکن ملک بھر میں مساجد کی تعداد کو اگر مدَنظر رکھا جائے تو احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر معلوم ہو گی۔ صرف ایک مثال اس کی دینے پر اکتفا کرتے ہیں جو بعدِنمازِجمعہ سوشل میڈیا پر ایک دوست نے پوسٹ کی (یہاں ان کا نام دانستہ نہیں لکھا جا رہا )۔ ان کی پوسٹ انھی کے الفاظ میں دیکھیے،آج نمازِ جمعہ پڑھنے گیا تو دیکھا کہ "نماز میں متعدد بچے و بوڑھے شامل، نہ ماسک، نہ سماجی فاصلہ، نہ سینیٹائزر، نہ سپرے، معمول کے مطابق صفیں اور دریاں بچھی ہوئیں"۔

یہ ہے ہمارے عوام کا مزاج اور ان کا عمومی شعور۔ سوال مگر یہ ہے کہ عوام کے عمومی شعور کے حوالے سے یہ بات اگر ایک عام فہم کا انسان سمجھ سکتا ہے تو حکومت کے کارپردازان کیوں نہیں سمجھ رہے ؟
ایک طرف حکومت کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ مکمل لاک ڈاؤن اس وجہ سے انتہائی ضروری ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کا زور توڑا جا سکے اور بے تحاشا جانی نقصان سے بچا جا سکے،اور یہ کہ لاک ڈاؤن میں نرمی صرف اس وبا کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے، بدقسمتی سے جس کی مرتکب ہماری حکومت برضا و رغبت ہو رہی ہے۔

تو دوسری طرف عوام کو بھی اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ احتیاطی تدابیراختیار کرنا اور مصافحہ اور معانقہ سے اجتناب ان کی اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے ، اور لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں رہنا ان کی اپنی بقا کا ضامن ہے۔ عملاً لاک ڈاؤن کو لمبی چھٹیاں سمجھ لیا گیا ہے ، کوئی چچا کے گھر جا رہا ہے، تو کسی کے گھر خالہ آ رہی ہے، کوئی ماموں سے ملنے جا رہا ہے، تو کوئی پھپھو کی دعوت کر رہا ہے،کوئی بھائی کے گھر جا رہا ہے تو کسی کے گھر بہن رہنے کو آ رہی ہے۔

ہمارے علاقے میں نوجوانوں کا یہ عالم ہے کہ دوست محفلیں سجا رہے ہیں، ایک دوسرے سے میل ملاقات کر رہے ہیں، مل جل کر کھانے کھائے جا رہے ہیں، سب رشتہ دار اورکزنز مل کر پتنگ بازی میں مصروف ہیں، کسی کو سمجھاؤ تو جواب ملتا ہے کہ ماسک بھی لگایا ہوا ہے اورسینیٹائزر بھی استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کویہ جاننے میں دلچسپی ہی نہیں کہ ماسک اور سینیٹائزر کے استعمال سے آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وائرس کپڑوں، جوتوں، ہاتھ میں پکڑے کسی شاپنگ بیگ یا کسی بھی چیز کے ذریعے بھی آپ کے ساتھ آپ کے گھر جا سکتا ہے۔

گھر آ کر بھی صرف ہاتھ دھونے پر اکتفا کیا جاتا ہے، کوئی کپڑے بدلنے کی زحمت نہیں کرتا حالانکہ باہر سے آنے کی صورت میں پہنے ہوئے کپڑے وائرس کے پھیلاؤ کا ایک ممکنہ ذریعہ ہیں۔ہم میں سے جو جو بھی احتیاط کر رہا ہے اور گھر میں رہتاہے ،وہ بلا ضرورت گھر سے باہر آنے جانے والے دوسرے افراد کی وجہ سے انتہائی خطرے میں ہے۔
ہر روز دن میں کئی بار خبروں کے ذریعے سوشل میڈیا کے ذریعے ہم مسلسل پڑھتے ہیں کہ پوری دنیا میں آج اتنے لاکھ لوگ متاثر ہو گئے اور اتنی اموات ہو گئیں اور آج اپنے ملک میں اتنے لوگ وائرس سے متاثر ہو گئے اور اتنے وفات پاگئے، لیکن اس کے باوجود کسی کو بھی صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں ہو رہا۔

دوسروں کے گھروں میں لگنے والی آگ ہمارے گھروں کے آس پاس منڈلا رہی ہے ،اس کے باوجود کوئی احتیاط کر نے کو تیار نہیں ہو رہا، کوئی گھر میں رکنے پر آمادہ نہیں ہورہا۔جب تک اپنے گھرمیں آگ نہ لگے ،تب تک اس کی تپش محسوس نہیں ہو سکتی۔ جب تک کوئی اپنا قریبی یا عزیز دنیا سے رخصت نہ ہو، رونا نہیں آتا۔جب تک درد خود کو نہ ہو، تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ہم سب اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے اپنے گھروں کے افراد انتہائی ناسمجھی میں بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے اس بارودکو سلگانے میں مصروف ہیں، بس ایک چنگاری کی دیر ہے۔اللہ ہم سب کو اپنی خاص امان میں رکھے۔اللہ سے رحم کی التجا کیجیے۔صرف معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :