طبی سہولیات اور ریاست

منگل 8 ستمبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

کسی مظلوم ، بے بس اور سفاکیت کے شکار دیوانے نے کہا تھا : خدا کسی دشمن کو بھی ہسپتا ل اور عدالت نہ لے کر جائے ۔ میں نے اپنے مشاہدے ، علم اور تجربے کی بنا پر اور دورِ حاضر کو دیکھ کر اس میں سرکاری ادارے بھی شامل کر دیے ہیں جو کہ اس فہرست کا حصہ اور اسی ظالم طریقہ کار کی نقل ہیں۔ اقبال  نے فرمایا تھا:
 علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر یہ حکومت !
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
میرے دیس کے کئی نوحے اور مر ثیے ہیں جن میں طبی سہولیات کی کمی اور انکی جانب عدم توجہ اہم ترین اور سرِ فہرست ہے۔

سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار اور طبی سہولیات کاتذکرہ فقط سرکاری اعلانوں اور نعروں سے عیاں اور واضح نہیں ہوتا۔ ہم جیسے کئی مظلوم اور عام شہری جو اس نظام کے ظلم اور بے حسیّ کا شکار ہیں اس کی راہ چلتی داستان اور تشہیر ہیں۔

(جاری ہے)

صحت کی سہولیات کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری اور شہریوں کا حق ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ریاست کی عدم دلچسپی اور غلط منصوبہ بندی کے باعث یہ شعبہ مسائل کی بھر مار اور وسائل کی کمی کا شکار ہے۔

میرے ذاتی مشاہدے ، علم اور تجربے کی بنیاد پر کیے گئے سامنے سے کئی مسائل کا ادراک ہوا جو اس تحریر میں درجہ بہ درجہ واضح کیے جائیں گے اور حل بھی پیش کیا جائے گا۔
سب سے اہم اور ضروری نقطہ غیر تسلی بخش علاج اور طبی عملے کی عدم دلچسپی اور بے حسی ّہے۔بد قسمتی سے وہ ڈاکٹر ز جن کو فرشتہ صفت اور رحم دل ہونا چاہیے اور جن پر ریاست فی کس لاکھوں روپے اخراجات کرکے اس مقام تک پہنچاتی ہے اس بے حسی میں پیش پیش ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں نوکری کے حصول کے بعد ڈاکٹرز بے حسیّ اور ظلم کی علامت بن جاتے ہیں۔فقط پیسہ اور شہرت ہی اُن کا قبلہ بن جاتے ہیں۔ مریضوں کا تسلی اور تفصیل سے معائنہ کرتے نہ ہی اُن کی تکلیف اور بیماری کی داد رسی ّکرتے ہیں۔ اس کا حل ڈاکٹرز کی سخت نگرانی اوراُن کی تنخواہوں کو مریضوں کے تاثرات سے جوڑنے مٰٰیں ہے۔
ایک دوسر ا بڑا سنگین مسئلہ جو طبی سہولیات کی بر وقت اور تیز فراہمی میں روکاوٹ اور کارِ اذیت ہے ، وہ طبیّ عملے، طبیّ لیبارٹریز اور معاون ملازمین کی بے حسی ّ، بد اخلاقی اور بے ایمانی ہے۔

ایک بیمار انسان ایک بچے کی مانند ہوتا ہے جس کو خوش اخلاقی، ہمدردی اور شفقت کے جذبات بیماری اور صحت یابی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے سرکاری ہسپتالوں میں اکثر تمام طبی اور معاون عملے کا رویہ انتہائی ظالمانہ اور باعث ِ تکلیف ہے۔ کیا نرسیں، خاکروب، چوکیدار، لیبارٹریز اسسٹنٹ ، استقبالیہ والے غرض سب ہی مریضوں اور انکے عزیزوں کو ایسے غصے اور غضب کا نشانہ بناتے ہیں جیسے وہ مجرم ہوں اور غلط جگہ آگئے ہیں۔

انکے ایسے رویے کے باعث پہلے سے بیمار ی اور دیگر مسائل کا شکار افراد مزید پریشانی میں مبتلا اور دُکھی ہو جاتے ہیں۔ان میں سے اکثر افراد فقط کاغذ کے ٹکڑوں کی صورت میں ہی آپکی بات سننے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایسی بے حس اور ظالمانہ صورتِ حال کو روکنے کے لیے منتظمِ ہسپتا ل کو سخت پیغام اور عمل کی ضرورت ہے۔ منتظم ہسپتال کے دفتر عوام کے لیے نہ صرف کھلے ہوں بلکہ انکے مسائل اور شکایات خلوص ِ نیت سے سُنی اور حل کی جائیں۔


اسی طرح ایک اور اہم اور قابلِ توجہ مسئلہ اوویات اور دیگر طبی اشیاء کی کمی، سُست ترسیل اور طبی عملے کا ہے۔ مثلا َ ادویات ، خون، ٹیکوں ، ڈرپس کی بوتلوں ، سٹینڈز اور دیگر معاون اشیاء کی کمی اور عدم دستیابی وغیرہ۔ اسی طرح مریضوں اور انکے عزیز و اقرباء کے لیے نا قص صفائی، بیت الخلا ء ،باورچی خانے ، غسل خانے ، مسافر خانے، بستروں کی صفائی، کرسی ، میز اور دیگر اشیائے ضروریہ کی کمی ، عدم دستیابی اور خستہ حالی بھی ہسپتالوں میں عوام کا نوحہ ہیں۔

اکثر جگہوں پر یہ اشیاء یا تو انتہائی گندی یا غلیظ ہیں کہ دیکھنے سے بھی کراہت اورمتلی کا احساس ہوتاہے ۔ اور کچھ جگہوں پر یہ سہولیات ناپید ہیں۔ مریضوں اور انکے اہلِ خانہ کے دن رات انتہائی کرب اور اذیت میں گزرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہسپتالوں میں ان تمام سہولیات کی کم از کم فراہمی اور مناسب دستیابی یقینی بنائی جائے۔ اس سلسلے میں منتظم ہسپتال کو ملنے والی رقوم کا سمجھداری سے استعمال اور بنیادی مندرجہ بالا سہولیات کی دستیابی یقینی بنائی جائے اورڈائریکٹر جنرل صحت اور سیکریٹر ی صحت اپنے ٹھنڈے کمروں اور گاڑیوں سے باہر نکل کر صدق ِ دل سے ہسپتالوں کا دورہ ہر ماہ کم از کم ایک دفعہ لازمی کریں۔


ایک اور اہم اور ضروری مسئلہ جو اکثر زیرِ بحث بھی نہیں آتا اور جس کی سنگینی کا احساس ہسپتال کی انتظامیہ اور ریاست کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ طبی عملے ، ڈاکٹرز اور خاص طور پہ سینئر ڈاکٹرز کی رات کے اوقات کار میں کمی اور عدم دستیابی ہے۔ بدقسمتی سے تو دن میں بھی سرکاری سینئر ڈاکٹرز اور سرجن حضرات کم ہی یا قلیل وقت کے لیے بطور مہمانِ خصوصی تشریف لاتے ہیں مگررات کے اوقات میں اکثر جگہ ان کی عدم دستیابی مریضوں کو سپردِ موت کرنے کے مترادف ہے۔

بالخصوص تمام حساس امراض کے مریضوں کے پاس سرجنز ااور سینئر ڈاکٹرز کا چوبیس گھنٹے ہونا ضروری اور نا گُزیر ہے۔اسی طرح اکثر جگہ رات کے اوقات میں عملے کی کمی اور لیبارٹریز کی بندش اور سامان کی عدم دستیابی کے باعث مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ٹیسٹ اور رپورٹس رات کے وقت میسر نہیں ہوتے جسکے باعث مریضوں اور ان کے رفقاء کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس مسئلے اور کمی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کے اوقات میں بھی ہر شعبہ میں کم از کم ایک سینئر ڈاکٹر ، طبی عملے کی کثیر تعداد اور لیبارٹریز میں ٹیسٹ ، سامان اور رپورٹس کی چوبیس گھنٹے دستیابی ممکن ہو تاکہ علاج میں کسی قسم کی تاخیر یا کوتاہی سے مریضوں اور عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اور آخر میں ایک اور اہم اور عوام کے لیے باعث ِ زحمت مسئلے کی نشاندہی کرنا چاہوں گا جو کہ اکثر عوام بھی بیچاری مجبوری اور بے بسی کے باعث نظرانداز کرنے پہ مجبور ہوتی ہے او رہمارے اہلِ اقتدار کو حسبِ معمول نظر نہیں آتا۔

وہ ہے ہسپتالوں اور اسکے گردونواح میں موجود مختلف مافیا۔ مثلا پارکنگ، کینٹین ، بیت الخلاء اور ادویات کی دکانیں وغیرہ۔ یہ تما م کاروبار مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور بالخصوص ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں اور انکے رشتہ داروں کے لیے بھی کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔وہ لوگ جو پہلے ہی حالات کے ستم کے مارے نہ جانے کہاں کہاں سے ہسپتال پہنچتے ہیں اور ادھر پہنچتے ہی انہیں پارکنگ ،کینٹین ، بیت الخلاء ، اوویات والے اور طبی عملہ غرض ہر کوئی حسبِ توفیق گراں فروشی اورقوّتِ اختیار سے دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ہسپتال کے انتظامی امورکے سربراہ کو پابند کر ے کہ وہ ان سب مافیا کا قلع قمع کرے اور عوام کے لیے باعث رحمت بنے۔ اور ریاست بھی ان تمام اشیاء کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر سبسڈی دے یا کم از کم ان کی سستی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطا بق دستیابی یقینی بنائے۔
کچھ عرصہ قبل پنجاب میں پاکستان تحریک ِ انصاف کی وزیر ِ صحت کا بیان پڑھنے کو ملا کہ ہم نے ہسپتالوں کی حالت بہت بہتر کر دی ہے۔

میں ان سے عاجزانہ اور دردمندانہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال کی تیسری، چوتھی منزل پر بذریعہ سیڑھیاں چڑھنے کی جسارت کریں اور انکے وارڈز بلخصوص بیت الخلاء اور باورچی خانوں کو ضرور دیکھیں تاکہ ایک تو آپ کو علم ہوکہ اکثر ہسپتالوں میں دوپہر کے بعد لِفٹس غیر فعال ہو جاتی ہیں اور دوسرا آپ کو اپنے دعووں کی قلعی کھلتے نظر آئے۔

اوراگر وہ رات کا وقت ہو تو بہت اچھا ہوگا۔اور آپ کے اس دعوے کے لیے ایک اور بھی مشورہ ہے کہ اپنے کسی عزیز یا قریبی شخص کو بغیر کسی حوالے کسی سرکاری ہسپتال کے کسی شعبے میں داخل کروائیں اور پھر اس سے چند دن بعدغیر جانبدارانہ رائے لیں تاکہ آپ کو آپکے دعوے کی اصل حقیقت کا ادراک ہو سکے۔جو شاید آپ نے کسی پرائیوٹ ہسپتال کو دیکھ کر یا کسی سرکاری ہسپتال کے ایم-ایس کے ٹھنڈے کمرے کو دیکھ کر کیا ہو گا کیونکہ آپ خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں۔
پھر شاعرِ مشرق یاد آئے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کُچل دیتے ہیں آلات !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :