قیام پاکستان اور عظیم رہنما

جمعرات 12 اگست 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

قیام پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے. تو سب سے پہلے جس شخصیت کا خیال آتا ہے. اور ان کی تگ ودو یاد رہتی ہے. وہ بانئ پاکستان محمد علی جناح کی عظیم شخصیت ہے.
اور ایسی عظیم شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں.
جنہیں تاریخ سنہری حروف میں یاد رکھتی ہے.
اسی لئے تو قائد اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے.
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایک بچہ جس نے ٢٥دسمبر ١٨٧٦ کو کراچی کے ایک تاجر کے گھر آنکھ کھولی.
اور ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی حاصل کی.

اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے. وہاں سے قانون کا امتحان پاس کیا.
اور بمبئ آکر وکالت شروع کر دی.شروع میں انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا.
لیکن ان کے پر عزم ارادے اور مسلسل کوشش نے جلد ہی آپ کے نام کو آپ کی پہچان بنا دیا.
ساتھ ساتھ اپنے سیاسی میدان میں بھی قدم رکھا. اور کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی. لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کیا.

کہ کانگریس صرف ہندوؤں کی جماعت ہے. اس لئے انہوں نے کانگریس سے علیحدگی کا اعلان کر کے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی.
آپ نے اپنی سیاسی بصیرت اور عزم و استقلال کی روشن مثال بن کر مسلمانوں کو ایک قوم بنانے، اور انہیں ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا.
یہ وہی شخصیت تھی. جسے سب قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے جاننے لگے.
انہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے دن رات تگ ودو کی.
اور دو قومی نظریہ پیش کیا.

اور سب کو بتایا کہ  مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں. جو ہر لحاظ سے ایکدوسرے سے مختلف ہیں.
اسی نظریئے کی بناء پر ہی منزل کا تعین کیا گیا.کیونکہ نظریہ کسی قوم کو اس کی منزل تک پہنچانے کا واحد راستہ ہوتا ہے. اور ایک واضح مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے.
اور جب یہی قوم اس نظریئے یا مقصد کو لے کر اکٹھی ہوتی ہے. تو دنیا کی کوئی طاقت اسے متزلزل نہیں کر سکتی.


پھر وہ قوم اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر رکاوٹ، اور مشکل سے گزر جاتی ہے.
ہمارا وطن پاکستان جس نظریئے کی بنیاد پر قائم ہوا.
وہ نظریہ اسلام کا نظریہ تھا. کیونکہ برصغیر پاک وہند میں دو قومیں آباد تھیں. ایک ہندو، اور دوسرے مسلمان. مسلمانوں کا مذہب، ان کا رہن سہن ہندوؤں سے بالکل الگ تھا.
اسی بات کو قائداعظم محمد علی جناح نے شدت سے محسوس کیا.


اور مسلمانوں کو احساس دلایا. کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے. جس پر پوری زندگی کا ڈھانچہ کھڑا، ہوتا ہے.
اور نظریہ پاکستان کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا. کہ اس نظرئیے کی ابتدا اسی وقت ہو گئ تھی. جب برصغیر میں پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا.
اس لئے یہ کہنا بجا ہو گا. کہ نظریہ پاکستان اصل میں اسلامی نظریہ حیات ہے.
 اور اسی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا.
١٩٣٠ء میں مسلم لیگ کے الہ آباد کے اجلاس میں علامہ اقبال نے جب مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی تجویز دی.

اور جب آپ نے مسلم لیگ کی صدارت کا مستقل عہدہ قبول کر لیا. تو وہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی تگ ودو میں لگ گئے. اور یہ اعلان کیا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے. وہاں ایک آزاد اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جائے. یہ اعلان تاریخ میں قرار داد پاکستان  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. جس کی رو سے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا.


آپ نے  لوگوں کو بتایا کہ  مسلمان ہر طرح سے ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں.
ان کا رہن سہن، مذہب، سب ہندوؤں سے مختلف ہے.
اس لئے ان کا، ہندوؤں کے ساتھ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے.
اس لئے ان کی ایک الگ ریاست ہونی چاہیے. جہاں وہ اپنے مذہب اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا، ہو سکیں.
ہندوؤں، اور انگریزوں نے ہر طرح سے اس مطالبے کی مخالفت کی.

لیکن قائداعظم کے اٹل فیصلے کے آگے ان کی ایک نہ چلی.
انہوں نے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر نوجوانوں کا حوصلہ بڑھایا. اور خلوصِ دل سے ایک الگ ریاست کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہو گئے.
اور انتھک محنت، اور عزم وہمت سے مسلمانوں کے لئے  ایک الگ وطن بنانے  میں کامیاب ہوئے.
آپ ایک عظیم رہنما کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے.
(جب آپ انگلستان گئے تھے.

تو آپ کے خاندان کی ایک خاتون رونے لگیں.تو آپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا. کہ بے حوصلہ کیوں ہوتی ہو؟ میں وہاں سے عظیم انسان بن کر آؤں گا. مجھ پر میرا ملک فخر کرے گا) اور سچ میں آپ نے اس بات کو ثابت کر کے دکھایا.
آپ نہ صرف ایک اچھے قانون دان بنے. بلکہ آگے چل کر معمار قوم، بھی بنے.
آپ کو اللہ پر مکمل بھروسہ تھا. اسی بھروسے کی وجہ سے آپ نے پاکستان بنانے کے لئے دن رات محنت کی.
اور انتھک محنت کی وجہ سے آپ کی صحت خراب رہنے لگی.لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری.

اور دنیا کی کوئی بھی رکاوٹ آپ کے پرعزم ارادے، کو متزلزل نہ کر سکی.
آپ عزم و ہمت کی اعلیٰ مثال بن کر دنیا کے سامنے آئے.
اور بالآخر تمام مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں  ١٤اگست ١٩٤٧ء کو ایک الگ وطن کا تحفہ دیا.
اور لاکھوں مسلمانوں کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرایا.
اور انہیں بتایا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے.
اسی لئے تو ہر کسی کی زبان پر یہ کلمات ہیں.


یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
مطالبہ پاکستان کو قیام پاکستان تک لانے میں آپ نے بھر پور جدوجہد کی.
اور جب یہ خواب جسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا. شرمندہ تعبیر ہوا.
تو آپ کی صحت مزید بگڑنے لگی. لیکن آپ نے آخری دم تک اپنی بیماری کا مقابلہ کیا. اور دنیا کو بتایا.

کہ واقعی آپ عظیم  رہنما ہیں.
آپ کو اللہ نے اسی مقصد کے لئے پیدا کیا. کہ آپ لاکھوں غلاموں کو غلامی سے آزاد کروا کر ان کے قائد بنیں.
آپ نے اس مقصد کو بطریق احسن پورا کیا.
اور مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکال کر ایک الگ پہچان دی، ایک الگ وطن دیا. جس میں وہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو سکیں.
چونکہ  پاکستان ایک نظریئے کی بنیاد پر بنا.  اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.

اور یہی پاکستان کا نظریہ تھا.
جس کی بنیاد پر  قائداعظم نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا. اور اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی.
اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے. اور انتہائی ایمانداری اور خلوص نیت سے کام کیا.
اور کبھی سرکاری خزانے سے اپنی ذات پر خرچ نہ کیا. اسی حوالے سے ایک واقعہ مرزا، ابو الحسن اصفہانی، اپنے مضمون، "بے مثال لیڈر "میں لکھتے ہیں.

(کہ ان کی آخری ملاقات 31 اگست 1947ءکو گورنر جنرل ہاؤس میں قائداعظم محمد علی جناح سے ہوئی. وہ بتاتے ہیں. کہ ملاقات کے اختتام پر جب ہم کمرے سے نکلے. تو وہ مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے. اور کمرے سے نکلتے وقت انہوں نے حسبِ عادت خود ہی تمام سوئچ آف کیے. (جیسا کہ گھر میں بھی ان کی یہ عادت تھی. کہ اضافی بتیوں کو بجھا دیتے تھے.)
میں نے ان سے کہا.

جناب آپ پاکستان کے گورنر جنرل ہیں. اور یہ سرکاری قیام گاہ ہے. اس میں روشنیاں جلتی رہنی چاہیں.
قائد نے جواب دیا. کہ یہ سرکاری قیام گاہ ہے. اس لئے تو میں اور محتاط ہوں.
یہ میرا اور تمہارا پیسہ نہیں ہے. یہ سرکاری خزانے کا پیسہ ہے. اور میں اس پیسے کا امین ہوں. اپنے گھر میں تو مجھے پورا اختیار تھا. کہ اپنے گھر کی ساری بتیاں جلائے رکھوں.لیکن یہاں میری حیثیت مختلف ہے.


تم زینے سے اتر جاؤ تو یہ  بٹن بھی بند کر دوں گا.)
یہ تھے ہمارے قائد.. اور ایک عظیم شخصیت. جب تک پاکستان قائم ہے. ہر پاکستانی کے دل میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.
جن کی بدولت ہمیں یہ پیارا ملک ملا.
اور ہر اس شخص نے قربانی دی. جو اسوقت قائداعظم کے ساتھ کھڑا تھا.  
آج ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے. کہ ہم کہاں کھڑے ہیں.جو ملک ہمیں بہت قربانیوں اور جدوجہد کے بعد ملا.

اور جس کی بنیاد ہی اسلام تھی. کیا ہم ان اسلامی اصولوں پر کارفرما ہیں؟"
یا ان تعلیمات کو بھول کر پھر سے مغرب کی غلامی کو اپنا رہے ہیں. ہم زہنی طور پر مغرب زدہ ہو گئے ہیں.
ہمیں آج ہر سال ١٤اگست کو خود سے یہ عہد کرنا ہے.
کہ ہم نے اس وطن کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا. اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی ہے. اور اس وطن کی تعمیر وترقی میں اہم اور مثبت کردار ادا کرنا ہے.
ہم جس شعبے، اور جس  حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں.ایمانداری، کو اپنا شعار بنا کر کام کرنا ہے.اور اس کے لئے ہمیں سچا مسلمان اور محب وطن شہری بن کر اپنے ملک کی خدمت کرنی ہے.

اور اسلامی  اصولوں پر عمل پیرا ہو کر  اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے.
کہ یہ ملک ایک عظیم ملک کے طور پہ سامنے آسکے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :