انڈیاکی دفاعی خود انحصاری ؟یا معاشی دباوٴ

منگل 30 مارچ 2021

Faraz Khan

فراز خان

انڈیا نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ دیسی ساختہ تیجاس لڑاکا طیاروں کو 2024تک اپنے فضائی بیڑے میں شامل کر ے گا ۔تیجاس مکمل طور پر انڈیا کا اپنا بنایا ہوا طیارہ ہو گا۔اگر چہ su-30mkiطیارے بھی انڈیا میں ہی تیار ہوتے ہیں لیکن یہ روس کے تعاون سے بنائے جاتے ہیں۔یہ طیارے ہندوستان ایروناٹکس لیمیٹڈاور انڈین اےئر فورس کی شراکت داری میں تیار ہوں گے جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ فور اینڈ ہاف جنریشن کے ہلکے وزن کے ساتھ ملٹی رول فائٹر جیٹ ہوں گے۔

اس میں دو طرح کے ریڈار شامل ہیں ایک انڈین اور دوسرا اسرائیلی ساختہ ریڈار ہے۔اس میں ائیر ٹو ائیرفیولنگ کی بھی صلاحیت ہو گی جو جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت بڑھائے گی جس کی وجہ سے اسے فیول بھروانے کے لئے زمین پر اترنا نہیں پڑے گا۔

(جاری ہے)

اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی انڈیا میں ہی تیار ہو گا۔ابتدائی طور پر ہندوستان ایرو ناٹکس لیمیٹڈ 83تیجاس طیارے بنائے گی جس میں 10طیارے ٹریننگ کے لئے استعمال ہوں گے۔

اس منصوبے کی بنیاد 1983میں رکھی گئی تھی اور لگ بھگ چالیس سال کے طویل عرصے کے بعد 2024میں اس قابل ہو گا کہ انڈیا کو ملکی ساختہ طیارے فراہم کر سکے۔
انڈیا کو ملکی ساختہ طیاروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں انڈین ائیر فورس کے طیاروں کے بارے میں جاننا ہو گا۔انڈین ائیر فورس کا زیادہ تر انحصار پرانے سوویت یونین اور موجودہ روسی ساختہ طیاروں پر ہے۔

جن میں mig-21،mig-29اورsu-30mkiہے۔اس کے ساتھ ساتھ فرانسیسی ساختہ میراج اور حال ہی میں خریدے گئے رافیل طیارے بھی انڈین فضائیہ کا حصہ ہیں۔برطانیہ کے جیگوار طیارے جو خود بر طانیہ نے 2007میں ریٹائرڈ کر دیئے تھے وہ ابھی تک انڈین ائیر فورس کا حصہ ہیں۔mig-21طیارہ انڈیا کا بد قسمت ترین طیارہ ہے جس کو سب سے زیادہ حادثات پیش آ چکے ہیں اور اسے عرف عام میں اڑتا ہوا تابوت کہا جاتا ہے ۔

بھارت رکشک کی ایک رپورٹ کے مطابق1963 سے 2015 تک اس طیارے کو 210 حادثات پیش آ چکے ہیں ۔27 فروری کو پاکستان نے یہی طیارہ گرایا تھااور اس کے کچھ دن بعد ہی راجھستان میں فنی خرابی کی وجہ یہ طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ یہ طیارے سوویت یونین نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں تیار کئے تھے۔سرد جنگ کے زمانے میں انڈیا کے سوویت یونین کی طرف جھکاؤکی وجہ سے یہ طیارے 1963میں انڈین فضائیہ کا حصہ بنے ۔

اس وقت 113کے لگ بھگ یہ طیارے انڈین فضائیہ کے پاس آپریشنل حالت میں ہیں۔یہ طیارے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری کر چکے ہیں مگر انڈین فضائیہ میں اس وقت طیاروں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے ان پرانے طیاروں کو اپ گریڈ کر کے ان کی عمر بڑھائی جا رہی ہے۔2019میں لوک سبھا میں ایک رپوٹ پیش کی گئی جس کے مطابق اس وقت انڈین فضائیہ کے پاس31سکوارڈن آپریشنل حالت میں ہیں جب کہ انڈین فضائیہ کی ضرورت کے مطابق اس کے پاس 18 طیاروں پر مشتمل42سکوارڈن ہو نے چاہئے۔

مستقبل قریب میں انڈیاmig-21 سمیت دیگر طیاروں کو ریٹائرکرنے جا رہا ہے اگر انڈین فضائیہ میں نئے طیاروں کو شامل نہ کیا گیا تو 2032تک یہ تعداد31سے کم ہو کر22رہ جائے گی۔نئے تیجاس طیارے mig-21کی جگہ لیں گے۔اور اس طرح انڈین فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والےmigطیارے ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔انڈیا اگر چہ اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دے رہا ہے مگر یہ اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔

انڈیا کو ایک طویل عرصے تک غیر ملکی اسلحے پر انحصار کرنا پڑے گا۔تیجاس کو ابھی تک کسی آپریشن میںآ زمایا نہیں گیا جس کی وجہ سے اس کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
انڈیا کی دفاعی پالیسی اس کی معیشت پر بھاری پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے انڈیا کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ غیر ملکی اسلحہ خریدنے اور اس کی اپ گریڈیشن میں خرچ ہو جاتا ہے۔

انڈیا نے اس سال دفاع کے لئے 49.6بلین ڈالر مختص کئے ہیں جس میں پچھلے سال کی نسبت تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس دفاعی بجٹ میں18.48بلین ڈالر اسلحے کی خریداری کے لئے رکھے گئے ہیں جس میں پچھلے سال کی نسبت سولہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔اس بجٹ کو اگر تینوں فورسز میں تقسیم کیا جائے تو انڈین آرمی کے حصے میں قریب پانچ بلین ڈالر ،انڈین نیوی کے حصے میں ساڑھے چار بلین ڈالراور انڈین ائیر فورس کے حصے میں سب سے زیادہ قریب سات بلین ڈالر آتے ہیں۔

انڈیا فضائیہ کے اس بجٹ میں فرانس سے خریدے گئے رافیل طیاروں کی ادائیگی اور روس سے میزائیل ڈیفنس سسٹمs-400 کی خریداری بھی شامل ہے۔ انڈیا اس وقت غیر ملکی اسلحے کی منڈی بن چکا ہے غیر ملکی اسلحے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد وہ ٹیکنالوجی پرانی ہو جاتی ہے۔اس کا حل پھر دو طرح سے نکالا جاتا ہے ایک یا تو اس کو کسی چھوٹے ملک کو سستے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے یا پھر اسے اپ گریڈ کیا جا تا ہے جس پر اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ اسلحے کی بحالی پر اٹھنے والے اخراجات بھی معیشت پر بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔اگر اس سال کے دفاعی بجٹ پر نظر دوڑائی جائے تو انڈیا نے صرف اسلحے کی بحالی اور تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں 29بلین ڈالر رکھے ہیں۔
انڈیا اپنی معیشت پر دباؤ کم کرنے لئے مقامی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے اس کے دو طرح کے مقاصد پورے ہوں گے ایک تو وہ دفاعی طور پر کسی حد تک خود کفیل ہو جائے گااور دوسرا اس کے ہمسایہ ممالک جو اس کے زیر اثر ہیں ان کو اسلحہ فروخت کر کے زر مبادلہ کمایا جائے گا۔

انڈیا کی اس کوشش میں اس کا ایک تحقیقی ادارہ ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائنزیشن (ڈی آر ڈی او)معاون ثابت ہو رہا ہے۔جس کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور یہ ادارہ تیجاس طیاروں سمیت یو اے وی(ڈرونز)پر بھی کام کر رہا ہے۔اسی ادارے نے حال ہی میں ایک ملکی ساختہ ٹینک ارجن ایم کے ون اے تیار کیا ہے جو کہ پرانے ارجن ٹینک کی جدید شکل ہے اس میں استعمال ہونے والے زیادہ تر آلات دیسی ہیں۔انڈیا کا یہ خیال ہے کہ یہ ٹینک حریف ممالک کے لئے ایک چیلنج ثابت ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :