پچھتاوے کے 50 سال

جمعہ 17 دسمبر 2021

Faraz Khan

فراز خان

16دسمبر کو بنگلہ دیش کو ہم سے علیحدہ ہوئے پچاس برس پورے ہو چکے ہیں ۔اسی دن جنرل اے کے نیازی کی قیادت میں پاک فوج نے انڈیا اور بنگلہ دیش کی مکتی باہنی کے سامنے سرنڈر کیا تھا۔وہ مشہور زمانہ تصویر جس میں جنرل نیازی انڈین جنرل جگجیت سنگھ ارورہ کے ساتھ بیٹھ کر سرنڈر کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں تاعمر ہمارے لئے نشان عبرت کا ساماں کر گئی ہے۔

اس کے ساتھ اندرا گاندھی سے منسوب وہ بیان کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے ہماری قومی غیرت کے لئے کافی تھا۔اس سانحے پر کئی کتابیں لکھی گئیں اور بہت ساری محققین نے اپنے تئیں وجوہات ڈھونڈنے کی کوششیں کیں۔اس سانحے کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا اگر چہ اس کمیشن کی فائنڈنگز کبھی پبلک نہیں کی گئیں لیکن کم و بیش ہرذی شعور پاکستانی ان وجوہات سے بخوبی آگاہ ہے جن کی بنا پر پاکستان دو لخت ہوا۔

(جاری ہے)

قوموں کی زندگی میں سانحات ایک عمومی چیز ہے لیکن ان سانحات سے کوئی قوم کتنا سبق حاصل کرتی ہے اس بات پر وہ قوم دوسروں سے خاص بنتی ہے۔ٍاگر ان اسباب اور وجوہات پر غور کیا جائے جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش نے ہم سے علیحدگی اختیار کی تو وہی اسباب پچاس سال گزرنے کے بعد بھی ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
بنگالیوں کا پاکستان سے سب سے بڑا اختلاف اختیارات کی منصفانہ تقسیم سے متعلق تھا ہندوستان سے آذادی کے بعد مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی اسی تناسب کی بنیاد پر بنگالی وسائل اور اختیارات بھی مانگتے تھے جب کہ یہاں کا مفاد پرست طبقہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے آئین سازی میں نو سال کا تعطل رہا۔

بنگلہ دیش کی پسماندگی کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وہاں پر قوم پرست تحریکوں نے جنم لیا۔بنگلہ دیش کے سیاسی لیڈر پاکستان میں ایک وفاقی اور پارلیمانی جمہوریت کے حامی تھی اور صوبوں کو زیادہ اختیارات دینے کے حق میں تھے ۔اس دوران پاکستان کبھی پارلیمانی اور کبھی صدارتی طرز حکومت کے تجربات سے گزرتا رہا۔پاکستان ابھی تک اس سیاسی بھنور سے باہر نہیں نکل رہا۔

ہمارے ہاں ابھی تک پارلیمانی اور صدارتی طرز حکومت کی خوبیوں خامیوں پر بحث جاری ہے۔وزیراعظم عمران خان صدارتی طرز حکومت کے دلدادہیں صدر ایوب خان کے سنہری دور کے قصے ان کے زبان زد عام ہوتے ہیں۔دوسری طرف پیپلز پارٹی اور اسکے ساتھ دیگر قوم پرست سیاسی جماعتیں پارلیمانی جمہوریت کی حامی ہیں۔
آج بھی سندھ اور بلوچستان وفاق سے اسی طرح گلہ بند ہیں جس طرح پچاس سال قبل مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے تھا۔

گوادر میں اس وقت مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں بلوچستان کو حق دو کے نعرے کے ساتھ ایک تحریک کئی دن سے گوادر میں دھرنا دئیے ہوئے ہے۔جس میں بہت بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ان کے مطالبات صاف پانی کی فراہمی ،ماہی گیروں کے روزگار کا تحفظ اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ہے۔قومی میڈیا کی جانب سے اس دھرنے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے دوسری طرف ارباب اختیار گوادر کے باسیوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

ریاست کے اس رویے پر کیا کہا جا سکتا ہے جہاں پر مسلح تحریکوں کے مطالبات کو ماننے کے لئے مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن وہاں پر امن سیاسی تحریکوں کے مطالبات کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کر دیا جا تا ہے۔
ایک اور بھنور جس میں یہ مملکت خداداد ابھی تک پھنسی ہوئی ہے وہ اس کی نظریاتی سر حدیں ہیں۔اس پر بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیڈروں کے درمیان کھینچہ تانی رہی۔

اس پر سب سے پہلے اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب 1949میں قرارداد مقاصد کو اسمبلی میں پیش کیا گیا بنگالی لیڈروں کی اکثریت نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ بنگال میں ہندو بھی ایک بڑی تعداد میں رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ اس بات سے خائف تھے کہ پاکستان میں اسلامائزیشن سے ان کے حقوق متاثر ہوں گے۔

ابھی تک یہ قوم اس تذبذب کا شکار ہے کہ اس ملک کی بنیادیں کن خطوط پر استوار ہونی چاہئیں۔یہاں پر صدر ایوب اور مشرف کی سیکولر حکومتیں عوام کو نہ بھائیں اور جنرل ضیاء کی اسلام پسندی سے بھی لوگ خائف ہیں۔اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان جیسی مکسچر حکومتیں عوام کو مطمئن کر سکیں۔ یہ ملک ابھی تک ملائیت اور سیکولرزم کے درمیان ایک سینڈوچ ہے۔

74 سال گزر جانے کے باوجود اس ریاست کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں پایا جانے والا ابہام ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بنگالیوں کا پاکستان کے ساتھ ایک دوسرا بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔مسلم لیگ کی لیڈر شپ صرف اردو کو قومی زبان قرار دینے پر مصر تھی جب کہ بنگالی اپنی زبان کے بارے میں بہت حساس تھے۔1948میں جب قائداعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا کہ صرف اردو ہی ہماری قومی زبان ہوگی تو اس پر طلباء نے احتجاج کیا اور بنگالی کو بطور قومی زبان منوانے کے لئے تحریک شروع کر دی۔

اس کے بعد خواجہ ناظم الدین نے اردو زبان کے حق میں بیان دیا توڈھاکہ میں بہت پر تشدد مظاہرے ہوئے جس میں کچھ طلباء مارے گئے۔جن کی یاد میں وہاں پر شہید مینار تعمیر کیا گیاتھا۔بنگالیوں کے لئے یہ مسئلہ صرف زبان کا نہیں تھا بلکہ ثقافت کا تھا ۔کیوں کہ زبان اور ثقافت ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں۔اور بنگالی اپنی ثقافت کے بارے میں حساس تھے۔

بحثیت مجموعی ہمارا رویہ آج تک نہیں بدلا۔آج بھی ہم کسی قوم کے لئے اسکی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے۔یہاں پر چند مخصوص قوموں کی زبان اور طرز زندگی کے بارے میں لطیفے مشہور ہیں۔اور اسطرح کے بے ہودہ مذاق اور لہجوں کی تضحیک کئی بار ٹی شوز میں بھی دکھائی جاتی ہے۔یہ ہماری مجموعی سوچ کا اظہار ہے جس کا ادراک ہمیںآ دھا ملک کھو دینے کے بعدبھی نہیں ہو رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :