امت مسلمہ کا خواب

ہفتہ 29 مئی 2021

Faraz Khan

فراز خان

جب کبھی ہم پر کوئی افتاد آن پڑتی ہے تو اکثر جملے جو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کہاں سوئی ہوئی ہے۔کشمیر میں اٹھائے جانے والے مظالم کی بات ہو،غزہ پر اسرائیلی بمباری کا ذکر ہو یا برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کا نوحہ ہو غرض جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہو ہمارے ذہن میں فٹ سے یہ خیال آتا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت بھی کسی ایک ملک کے سامنے کیوں بے بس ہے؟فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران گیارہ دنوں میں لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی شہید اور پندرہ سو کے قریب زخمی ہوئے لیکن اس دوران کسی بھی اسلامی ملک کی طرف سے سوائے روائیتی مذمت کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا۔

چین اور فرانس جیسے ملک جن کو مسلم دنیا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے ان کی غیرت ہم سے پہلے جاگ چکی تھی جو جنگ بندی کرانے کے لئے بھر پور کوشش کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس کشیدگی میں امریکہ کے کردار کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی لیکن ہمارے حکمرانوں کی اکثریت نے خاموشی میں ہی گوشہ آفیت سمجھی۔دنیا میں لگ بھگ دو سو کے قریب ممالک ہیں جن میں مسلم اکثریت ممالک کی تعداد پچاس سے زائد ہے آبادی کے لحاظ عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے بعد اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن پھر بھی ہمارا امت مسلمہ والا خواب پورا کیوں نہیں ہوتا۔


امت مسلمہ کا تصور ہمیں چودہ سو سال پہلے ملتا ہے جب حضورﷺنے ہجرت مدینہ کے موقع پر مہاجرین اور انصار کو صرف مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا گیا ۔جب آپس کے رشتوں میں مذہب کو فوقیت دی گئی تو اس کے نتیجے میں تمام تر نسلی ،لسانی اور قبائیلی عصبیتیں دب کر رہ گئیں۔خلفائے راشدین کے زمانے میں اسلامی سلطنت میں جب توسیع ہوئی تو باہمی اتحاد کو فروغ دینے کے لئے انتظامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ اسی امت مسلمہ کے تصور کو فروغ دیا گیا۔

امت مسلمہ کو ایک منفرد طرز حکومت جس کو خلافت کہا جاتا ہے سے بھی روشناس کرایا گیا۔حضورﷺکے دور سے لے کر جب مختلف غزوات کے نتیجے میں اسلامی ریاست کی حدود میں اضافہ ہواخلافت عثمانیہ تک جو خلافت کا تصور ہمارے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی اسلامی ریاست ایک ہی مرکزی حکومت کے تحت چلتی تھی تاہم انتظامی معاملات میں آسانی کے لئے مختلف صوبوں اور گورنروں میں ریاست تقسیم ہوتی تھی ۔

جب ایک ہی مذہب کے ماننے والے ایک ہی مرکزی حکومت کے زیر سایہ ہوتے تھے تو اس سے ریاست کی طاقت کا اظہار ہوتا تھا۔لیکن بد قسمتی سے حضورﷺکے وصال کے کچھ ہی عرصے بعد خلافت کے تصور میں ردوبدل کر لیا گیا بعد ازاں اموی اور عباسی دور حکومت میں نام صرف خلافت کا استعمال ہوتا رہا لیکن عملی طور پر وہ حکومتیں بادشاہت سے بھی بد تر تھیں۔جب مذہب کا استعمال ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے شروع ہو ا تو وہیں سے امت کے تصور میں ڈینٹ پڑنے شروع ہو گئے۔


اٹھارویں اور انیسوی صدی میں مغرب میں قومی ریاست کے تصور نے جب زور پکڑا تو اس کا اثر لا محالہ خلافت کے تصور پر بھی پڑا۔قومی ریاست کے اس تصور کے مطابق قوم کی تشکیل یکساں زبان،نسل،رنگ یا ایک ہی علاقے کے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہئے اوریورپ کی اکثر ریاستیں اسی تصور کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔خلافت کا نظام جو پہلے ہی ملوکیت کی راہ پر چل رہا تھا اس تصور کی وجہ سے امت مسلمہ میں سے بھی نسلی ،لسانی اور علاقائی گروہ سامنے آنے لگے۔

بیسوی صدی کے آغاز ہی میں خلافت کا آخری ٹمٹما جو خلافت عثمانیہ کی صورت میں بچا تھا وہ بھی بجھ گیا۔خلافت عثمانیہ کے بعد جو ممالک بھی وجود میں آئے وہ تمام تر اسی قومی ریاست کے تصور پر بنائے گئے۔پوری اسلامی دنیا میں جو ممالک بھی قیام پذیرہوئے سوائے پاکستان کے کسی کی بھی تشکیل مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔بیسوی صدی کے آغاز میں مسلم امہ کی اکثریت جو خلافت کے نظام کے زیر سایہ یک جان تھی وہ صدی کے آخر تک کئی ممالک کی صورت میں بکھر چکی تھی۔

1967کی عرب اسرائیل جنگ اور بعد میں مسجد اقصیٰ میں اسرائیل کی شر انگیزی سے مسلمانوں کوجب عدم تحفظ کااحساس ہوا تو دوبارہ سے اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کا خیال پیدا ہواجس کے نتیجے میں او آئی سی بنائی گئی۔خوش قسمتی سے اس دوران مسلمانوں کے پاس سوئیکارنو،جمال عبدالناصراور شاہ فیصل جیسی قیادت بھی موجود تھی جو اپنی سحر انگیز شخصیت کی بدولت مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم تلے جمع کر سکتی تھی۔


اکیسوی صدی کی مسلم دنیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو بہت گھمبیر صورتحال سامنے آتی ہے ۔افریقی مسلم ممالک غربت ،دہشت گردی اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔مڈ ل ایسٹ عرب سپرنگ کی تحریک کے بعد کچرے کا ڈھیر بنا پڑا ہے وہیں خلیجی ریاستوں کی آپسی چپقلش نے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔سوویت یونین سے آذاد وسطی ایشیائی ریاستیں صرف معاشی خوشحالی کی جستجو میں گم ہیں جب کہ کمیونزم کے اثرات کی وجہ سے وہاں مذہب کو اتنی فوقیت نہیں دی جاتی۔

جنوبی ایشیاء کے پاکستان ،افغانستان اور بنگلہ دیش کے حالات آپ کے سامنے ہی ہیں۔ہمارے ہاں جن چند مسلم لیڈروں کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جن میں ترکی کے صدر ایردوان،سعودی عرب کے محمد بن سلمان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد شامل ہیں یہ سب نیشنلزم کی تحریکوں سے متاثر ہیں جن کا مقصداپنی تہذیب اور اجارہ داری کوپوری مسلم دنیا پر حاوی کرنا ہے۔ان حالات میں اگر پھر بھی کشمیر کے حریت پسند ہوں یاروہنگیاکے مسلمان یا غزہ کی پٹی پر مقیم فلسطینی اگر مسلم امہ کی طرف سے مدد کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو ان کے لئے شعر عرض ہے۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :