کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟

اتوار 6 ستمبر 2020

Faraz Khan

فراز خان

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے ا من معاہدے کوگلف ممالک کی پالیسی شفٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو عارضی طور پر فلسطینی علاقوں پر قبضے سے روک دیا ہے۔دوسری طرف دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات قائم کرنے،ٹیکنالوجی اور سیاحت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔اس معاہدے سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ تعلقات قائم تھے اور خطے میں جاری جنگ میں متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کا انٹیلی جینس تعاون حاصل تھا۔

سعودی عرب نے اس پیش رفت پر خاموشی اختیار کی ہے۔جبکہ اومان اور بحرین نے دونوں فریقوں کو مبارک باد دی ہے۔ایران اور ترکی نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔اگر دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے ذیادہ تر ممالک نے ان نئے تعلقات کو قبول کر لیا ہے۔

(جاری ہے)


آنے والے دنوں میں مزید پیش کا خاصا امکان ہے۔کچھ دن پہلے سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی ایئر لائنز کے لئے کھول دی ہے۔

اس سے قبل سعودی عرب نے انڈین ائیر لائنز کو یہ سہولت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے لئے اپنی پروازیں سعودی عرب کی حدود سے گزار سکتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے آنے والے دنوں میں مزید ممالک اسرائیل کے ساتھ اس طرح کا امن معاہدہ کر لیں گے۔اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عرب ممالک نے اسرائیل کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا ہے۔

اسکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے سائنس و ٹیکنالوجی اور عسکری شعبے میں بہت ترقی کر لی ہے اور دوسرا اس کے پیچھے امریکہ کی بھاری سپورٹ موجود ہے تمام عرب ممالک مل کر بھی اس کو شکست نہیں دے سکتے۔1967کی عرب اسرائیل جنگ اس کی واضح مثال ہے جہاں اردن ،شام اور مصر کی مشترکہ افواج اسرائیل سے شکست کھا گئیں۔اسکی دوسری وجہ علاقائی سیاست ہو سکتی ہے اس معاہدے کو ایران کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کو خطے میں ایران کی پراکسی وار کا سامنا ہے۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور حوثی باغیوں کی صورت میں سعودی عرب اپنے دفاع پر مجبور ہے۔ان حالات میں گلف ممالک کی مجبوری بن چکی ہے کہ اسرائیل جیسے طاقتور ملک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں۔
جنرل(ر)شاہد عزیز اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ پرویز مشرف امریکہ کے دورے سے واپس آئے توانہوں نے تجویز دی تھی کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے لیکن کسی نے بھی اس تجویز کو تسلیم نہیں کیا۔

پھر انہی کے دور میں 2005میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی استنبول میں اسرائیل کے وزیر خارجہ سے ملاقات بھی ہوئی۔اسکے علاوہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تھوڑابہت تعاون پایاجاتا تھا۔لیکن پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھیں توقائد اعظم محمد علی جناح فلسطینی سرزمین پر یہودی آباد کاری کے سخت مخالف تھے اسی وجہ سے انہوں نے 1948میں اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے بھیجے جانے والے خط کو نظر انداز کر دیا جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے بات کی تھی۔

تب سے لیکراب تک اسرائیل کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی ویسی ہی ہے۔
لیکن اب حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔عالمی سطح پر بالعموم اور مسلم ورلڈ کے اندر بالخصوص بلاکس بنتے جا رہے ہیں۔مڈل ایسٹ میں امریکہ کی سر پرستی میں اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کا بلاک بنتا جا رہا ہے۔دوسری طرف ایران ،ترکی،قطراور ملائشیا کا گروپ بن چکا ہے۔

پاکستان کا ان دونوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔سفارتی سطح پر دوسرے گروپ نے عالمی فورم پر پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے لیکن پاکستان کی معاشی و عسکری ضروریات پہلا گروپ پورا کر رہا ہے۔پاکستان نے ابھی تک چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بیلنس کیا ہوا ہے لیکن مڈل ایسٹ کی سیاست میں یہ بیلنس نہیں ہو پائے گا۔اگر فرض کریں کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے اور تینوں ملک سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی طرف سے پاکستان پر دباؤ آتا ہے آپ بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں تو پاکستان کب تک اپنے تاریخی موقف پر قائم رہ پائے گا؟
اگر ہم اپنے آس پاس کی بات کریں تو یہاں بھی اسرائیل کا اثر ورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔

انڈیا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات ماضی کی نسبت بہت بڑھ چکے ہیں ۔اسکے ساتھ ساتھ انڈیا اسرائیلی اسلحے کی منڈی بنتا جا رہا ہے۔فروری2019میں جب انڈیا پاکستان کے درمیان ائیر سٹرائیکس ہوئیں تو اس میں بھی انڈیا کو اسرائیل کا تعاون حاصل تھا۔انڈیا کی طرف سے جو بم بالاکوٹ میں گرایا گیا تھا وہ بھی اسرائیلی ساختہ تھا۔تمام تر حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پالیسی سازوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ اسرائیل کی حوالے سے کو ن سی پالیسی میں ہمارا فائدہ کتنا ہے۔آجکل کی دنیا میں ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :