کچھ نظر کرم ادھر بھی

پیر 9 نومبر 2020

Faraz Khan

فراز خان

فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں جو ردعمل آیا وہ قابل دید تھا۔فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک اتنی متاثر کن تھی کہ فرانسیسی صدر میکراں کو بھی اپنی حرکت کی وضاحتیں دینی پڑگئیں اور مسلمانوں کو بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیل کی۔اس واقعے کے بعد دنیا میں مسلمانوں کے لئے قدرے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے اور اظہار رائے کی آذادی کے فلسفے پر بحث شروع ہو گئی۔

اس واقعے کے فوراٌبعد ایک تیونس کا شہری نائس شہر میں واقع چرچ میں گھس گیااور تین لوگوں پر حملہ کر دیا ۔اس واقعے نے ساری بحث کو سمیٹ کر رکھ دیا اور ہمدردی کے جذبات کو نفرت میں بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگی۔ ہماری اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں کی نہیں بیانیے کی جنگ ہے اور اس بیانیے کی جنگ ہم بری طرح سے ہار رہے ہیں اس جنگ میں ہتھیاروں کا انتخاب غلط کر لیا گیا ہے اور پھر نتیجہ یہ نکلا ہے کی اسلامی دہشتگردی کا جھومر ہمارے ماتھے پر سجا دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)


گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مملکت خداد میں بھی ہر طرف بائیکاٹ اور فرانس کو سبق سکھانے کی باتیں ہونے لگیں ان پر عمل کتنا ہوا وہ الگ بات ہے۔کسی دوسرے کو سبق سکھانے سے پہلے ہمیں خود بہت سارے سبق سیکھنے ہیں اور پہلا سبق ہے اپنے گریباں میں جھانکنے کا۔زیادہ دور نہیں جاتے کچھ دن پہلے کابل میں ایک یونیورسٹی پر حملہ ہوا جس میں تیس کے قریب طالب علم مارے گئے ان میں زیادہ تر کی عمریں بیس سے پچیس برس تک تھیں۔

ان میں بہت ساری لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ان میں مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں اگر مارنے والوں کو مسلمان نہ بھی کہیں پھر بھی وہ لڑ اسلام کے نام پرہی رہے ہیں۔اگر پھر بھی آپ کا اسرار ہے کہ ان لوگوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں تو ایک فہرست بنائیں اوراس میں ان مذہبی شخصیات کے نام لکھیں جنہوں نے اس واقعے یا اسی طرح کے سینکڑوں دہشتگردی کے واقعات کی کھل کر مذمت کی ہے۔

آپ لاکھ گلے پھاڑ پھاڑ کر کہتے رہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے لیکن جب تک اپنے کردار سے ثابت نہیں کریں گے تب تک کوئی نہیں مانے گا۔
کچھ دن پہلے سندھ میں ایک چالیس سالہ شخص نے ایک تیرہ سالہ عیسائی لڑکی کو اغوا کر کے لے گیا اور اس سے شادی کر لی اور بعد میں یہ ظاہر کیا کہ اس تیرہ سالہ لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کر لیا۔

جس عمر میں بچے کو اپنے مذہب کے بارے میں بھی سطحی معلومات ہوتی ہیں اس عمر میں کیسے اس نے اسلام کے بارے میں اتنا کچھ جان لیا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کرنا ہے ۔اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ کراچی میں ہوا جہاں پر ایک مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ہمارے لئے اس طرح کے واقعات کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے لیکن بین الاقوامی میڈیا میں یہ بڑی سرخی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔

ایسے واقعات ہماری اخلاقی ساکھ کو تب متاثر کرتے ہیں جب ہم دنیا کے سامنے کشمیر ،فلسطین اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتے ہیں۔جو حقوق خود اسلام نے اقلیتوں کے لئے متعارف کرائے ہیں ان کو نہ مدارس میں پڑھایا جاتا ہے نہ سکولوں میں۔مذہبی رواداری کس بلا کا نام ہے آج کل کے نوجوان سے اسکا مطلب پوچھنا عبث ہے۔

دوسری طرف مذہبی طبقہ بھی اپنی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہے۔چند ایک شخصیات کو چھوڑ کر باقی سارے مولوی حضرات اقلیتوں کے بارے میں جو رویہ رکھتے ہیں وہ آپ سوشل میڈیا پر ہر طرف بکھرے ہوئے کلپس کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
آج کل کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے عوام نے کسی واقعے یا کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنا اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔

قائد آباد میں ایک سیکیورٹی گارڈاپنے ہی بینک مینیجرکو گولی مارتا ہے پولیس اس کو گرفتار کر لیتی ہے۔پھر کہیں سے کوئی افواء نکلتی ہے کہ جس شخص کو گولی ماری گئی ہے وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔پھر کیا تھا سرفروشوں نے سر پہ کفن باندھ لئے اور تھانے پر دھاوہ بول دیا۔پولیس سے ملزم کو چھڑوا کر پورے شہر میں اس کو پھرایا گیا۔اب تک کی معلومات تک کچھ اس کو ذاتی عداوت کی وجہ قرار دے رہے کچھ کے نزدیک فرقہ وارانہ نوعیت کا معمولی اختلاف اس کی وجہ تھی۔

مشال خان کے واقعے کے بعد اس بات کی گنجائش تھی کہ اب لوگ اس طرح کے الزام کے بعد تھوڑی بہت تحقیق کر کے ہی کوئی قدم اٹھائیں گے ۔لیکن پے در پے واقعات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ہم جہالت کے تاریک بادلوں کے سائے میں پل بڑھ رہے ہیں۔یہاں پر کسی علمی نوعیت کی مذہبی بحث کرنا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔خیالات کے تبادلے کے بجائے گولیوں کا تبادلہ ہوا کرے گا۔

نئی سوچ یا اجتہاد کا راستہ جو صدیاں پہلے ہم نے بند کر دیا تھا اب وہ مہر بند ہو چکا ہے ۔
اوپر تین طرح کے مختلف واقعات بیان کئے گئے ہیں لیکن تینوں کی جڑیں اسی سماج سے آب یار ہو رہی ہیں۔ہر طرف ایک مجرمانہ خاموشی چھائی ہو ئی ہے۔پھر اسی خاموشی کے نیچے ہر وہ آہ وبکا دب کر رہ جاتی ہے جو کشمیر ،فلسطین ،عراق ،شام اور افغانستان کے کسی بے گناہ کے دل سے نکلتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :