ریاست واقعی ماں جیسی ہے

پیر 8 فروری 2021

Faraz Khan

فراز خان

اگر قدیم یونانی سیا سی فکر کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ وہ لوگ ریاست کے بہت بڑے حامی تھے ان کے نزدیک ریاست ایک اخلاقی ادارے کی سی حیثیت رکھتی تھی جس میں ایک فرد کی بہتر نشونما ہو سکتی ہے۔اسی سوچ کی عکاسی ارسطو کے مشہور زمانہ قول کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے سے ہوتی ہے۔اس سوچ میں خدائی خصلت کو شامل کرتے ہوئے جرمن آئیڈیلسٹ ہیگل نے ریاست کو خدا کی زمین پر چہل قدمی قرار دیا۔

یہ لوگ فرد کے معاملات میں ریاست کے زیادہ سے زیادہ کردار کے حامی تھے۔سولہویں صدی کے اطالوی مفکر میکاولی نے ریاست کی ایک خوفناک شکل متعارف کروائی جہاں سیاست اور اخلاقیات جدا ہو گئیں اور ریاست کے لئے ہر جھوٹ ،فریب اور ظلم جائز قرار دیا گیا۔اسی طرح انگریز قانون دان جان آسٹن نے عوام کے گرد ریاستی شکنجے کو یہ کہہ کر مضبوط کیا کہ حکمران کی منشا اور مرضی قانون کا درجہ رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

اس سوچ پر کاری ضرب افادیت پسندوں نے لگائی اس فکر کے بانی برطانوی فلسفی جرمی بینتھم تھے ان کے نزدیک ریاست کا مقصد صرف عوام کو زیادہ سے زیادہ خوشیاں فراہم کرنا ہے انہوں نے انفرادی آذادی کا پر چار کیااور ذیادہ قوا نین کی نفی کی۔بینتھم کے خیالات نے بعد کے ایک اور عظیم فلسفی جان سٹیورٹ مل کو بہت متاثر کیا جن کو لبرلزم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔

جنہوں نے ریاست کے لامحدود کردار کو محدود کر دیا۔اس سوچ کی انتہا بعد میں انارکزم کی تحریک کی صورت میں نمو دار ہوئی جہاں ریاست کو سرے سے ختم کرنے کی بات ہوئی اور ایک سٹیٹ لیس معاشرے کا پر چار کیا گیا۔جب ان دونوں فکروں میں انتہا پسندی غالب آنے لگی تو ایک تیسرا راستہ فلاحی ریاست کے تصور نے نکالاجن کے مطابق ریاست کو موجود تو رہنا چاہیے مگر اس کا مقصد شہریوں کی فلاح و بہبودپر توجہ دینا ہو۔

اس ماڈل کو سب سے پہلے بسمارک کی قیادت میں جرمنی میں نافذکیا گیا جس میں شہریوں کی ہیلتھ انشورنس اور پنشن کے نظام کو وضع کیابعد میں بر طانیہ امریکہ اور دیگر یورپی ریاستوں نے کئی ایک اصلاحات کے ذریعے اپنے شہریوں کو مفت علاج،تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنا شروع کر دیں۔جب یورپ میں صنعتی ترقی کا زمانہ تھا تو طبقاتی نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا مزدور طبقہ صنعتکاروں کے رحم و کرم پر تھا اس وقت ریاست کی مجبوری تھی کہ مزدور اور محنت کش طبقے کے لئے اصلاحات لائی جائیں تاکہ ان میں بے چینی پیدا نہ ہواور ریاست کی ترقی میں اور زیادہ محنت سے کام کریں۔


ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان تعلقات کو جاننے کے لئے ہمیں ریاست کی ابتدا کو سمجھنا ضروری ہو گا ۔ریاست کی ابتدا سے متعلق ویسے تو بہت سارے نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ مقبول اور اکثراس کا ذکر ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے وہ معاہدہ عمرانی ہے۔معاہدہ عمرانی تین مفکرین ہابز،لاک اور روسو نے پیش کیا تھا ۔ان کا خیال تھا کہ ریاست افراد کے درمیان معاہدے کی صورت میں وجود میں آئی ہے۔

تھامس ہابز کہتا ہے کہ جب ریاست نہیں تھی توہر طرف انارکی اور ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔اس نا انصافی اور ناہمواری کے ماحول نے لوگوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے اوپر ایک اتھارٹی کو قائم کر لیں تا کہ ان کی جان و مال کا تحفظ ہو سکے اور یہی در اصل ریاست کا ابتدائی دور تھا۔ اس نظریے سے ریاست کے مقاصد بہت حد تک واضح ہو جاتے ہیں ۔جب بھی کوئی ریاست شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہ کر پائے،ان کے دفاع کے لئے مضبوط نظام قائم نہ سکے اور عدل و انصاف کا ایک منصفانہ نظام نہ وضع کر سکے تو وہ ریاست معاہدہ عمرانی کی رو سے اپنے مقصد میں نا کام ہے۔

اگر وہ اپنے مقاصد حاصل کر بھی لے تو وہ محض ایک ریاست ہی ہے ابھی فلاحی ریاست یا ماں کے کردار سے کو سوں دور ہے ۔
پاکستان میں جب کبھی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ریاست تو ہو گی ماں کی جیسی تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس ریاست کی بات کر رہے ہیں۔کسی بھی ریاست کا آئین اس کی کا ر کر دگی آئینہ دار ہو تا ہے۔مجھے یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریاست پاکستان آئین پاکستان پر کتنا عمل پیرا ہے۔

جو لوگ ریاست کے لئے ماں کا نعرہ استعمال کر تے ہیں تو یقین مانئے کہ ان کے لئے یہ ملک کسی ماں سے کم نہیں ہے۔یہ والی ماں اپنی ممتا کا اظہار صرف طاقتور اور صاحب اقتدار پر ہی کرتی ہے۔جب معاملہ کمزور اور طاقتور کے درمیان ہو تو ماں کا دست شفقت طاقتور کی جانب پھسل جاتا ہے۔ اگر یہ ماں سب کی ماں ہو تی تو غریب کی گردن کٹی لا شیں اتنے دن کھلے آسمان تلے انتظار نہ کرتیں۔اس ماں کے سامنے سڑک پر کمسن بچوں کو یتیم کر دیا گیا لیکن ماں ٹس سے مس نہیں ہو ئی۔اگر آپ طاقتور نہیں ہیں اور اوپر تک پہنچ بھی نہیں ہے تو آپ کی ماں وہی ہے جو آپ کے گھر میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :