افغان جنگ کی اگلی قسط

جمعہ 2 جولائی 2021

Faraz Khan

فراز خان

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہو چکا ہے اور جو بائیڈن کے وعدے کے مطابق اس سال ستمبر گیارہ کو جب ورلڈٹریڈ سنٹر پر حملے کو بیس سال مکمل ہو جائیں گے تو افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو چکا ہو گا۔امریکہ بظاہر اپنی طویل ترین جنگ کی بساط لپیٹ رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس خطے کے لئے ایک نئی جنگ کا پورا پورا سامان کئے جا رہا ہے۔

افغانستان کی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آدھے سے بھی کم علاقہ کابل انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے جب کہ باقی کا افغانستان کچھ طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہے اور کہیں پر قبضے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔پچھلے ہفتے طالبان نے تاجکستان اور افغانستان بارڈر پر ایک اہم تجارتی گزرگاہ پر قبضہ کر لیاجو افغانستان کو سنٹرل ایشیاء سے جوڑتی ہے۔

(جاری ہے)

اس قبضے کے ساتھ ہی قندوز سٹی پر بھی طالبان کے قبضے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

افغانستان دوبارہ اس دور میں واپس جا رہا ہے جب افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد ایک خلا پیدا ہو گیا تھا اور ایک مضبوط سیاسی حکومت کی عدم موجودگی میں طالبان طاقت کی بنیاد پر حکومت پر قابض ہو گئے تھے۔آج کا منظر نامہ بھی کچھ ویسا ہی ہے جب نیٹو فورسز افغانستان سے جا رہی ہیں طالبان کی بھی پیش قدمی بڑتی جا رہی ہے۔عالمی سطح پر ایک خدشہ شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے کہ جب نیٹو فورسز کا انخلا مکمل ہو جائے گاتو اشرف غنی حکومت چند ماہ میں ہی ڈھیر ہو جائے گی۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ افغانستان کے بارے میں غیر سنجیدہ ہے؟ یا جلد بازی میں اس جنگ سے جان چھڑا رہاہے ؟یا پھر کسی نئی گیم کی تیاری ہو رہی ہے ؟اوباما کے دور میں ہی افغان جنگ سے جان چھڑانے کا کام شروع ہو چکا تھا۔پھر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آگئے انہوں نے بہت سرعت کے ساتھ اس پر کام کیا طالبان کے ساتھ پیس پراسیس بھی انہوں ہی نے شروع کیا ۔

ادھر امریکہ میں الیکشن سر پر تھے تو ٹرمپ نے جیسے تیسے طالبان کے ساتھ ڈیل کر کے عوام کے سامنے اپنے کاغذ سیدھے کر لئے۔یہ ڈیل بہت جلد بازی میں مکمل کی گئی ہے اور اس کا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑے گا۔پہلی بات یہ ہے اس پورے پراسیس کے دوران افغان حکومت کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیااور جو معاہدہ ہوا وہ بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان تھا اور امریکہ نے ایسا کر کے طالبان کو افغان حکومت کے برابرکھڑا کر دیا۔

اس معاہدے میں ایک شرط طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی جو امریکہ نے تو مان لی مگر افغان حکومت ان کو رہا کرنے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ افغان حکومت اس شرط پر راضی نہیں تھی۔دوسری شرط یہ تھی کہ طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ کوئی بھی ایسی تنظیم کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جائے گا جو امریکی سلامتی کے لئے خطرہ کا باعث ہو۔اب سوال یہ ہے کہ طالبان سے اسطرح کی ضمانت کیوں لی گئی کیا وہ اقتدار میں ہیں یا جن علاقوں پر وہ قابض ہیں ان پر طالبان کی حاکمیت کو امریکہ نے تسلیم کر لیا ہے۔

اس شرط نے طالبان کی راہ کو ہموار کر دیا ہے کہ اگر وہ مستقبل میں غنی حکومت کو گرا دیتے ہیں تو امریکہ طالبان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گاکیوں کہ طالبان کے بر سر اقتدار ہونے سے ہی وہ امریکہ کے اس مفاد کا بہتر تحفظ کر سکتے ہیں۔
امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں جلدی ہے مگر اس نے پاور شیئرنگ کا کوئی پر امن فار مولا نہیں دیا ۔ایک طرف وہ طالبان کو افغانستان کی سیاسی قوت تسلیم کر تے ہیں دوسری طرف وہ غنی حکومت کی بھی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

دونوں قوتوں کا کسی ایک نظام کے تحت کام کرنا بہت مشکل ہے۔طالبان کے لئے جمہوری نظام نا قابل قبول ہے تو دوسری طرف امریکہ بھی اسلامی امارات کو قبول نہیں کر سکتا۔اگر دونوں فریق کسی ایک نظام کو قبول کر بھی لیں تودو مختلف نظریات رکھنے والی قوتیں ،جو ابھی تک ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں کیسے اکھٹے مل کر سسٹم کو چلا پائیں گے۔امریکہ کے انخلا کے بعد اس کا افغانستان میں کردار محدود ہو جائے اور پاور شیئرنگ منصوبے کے بغیر صرف طاقت کے ہی اصول کے تحت کوئی بھی فریق اقتدار میں رہ پائے گا۔

ایک مضبوط سیاسی حکومت کے بغیرافغانستان میں دوبارہ شدت پسندی بڑھے گی جس کے اثرات اس خطے کے ساتھ ساتھ امریکہ تک بھی جائیں گے۔
آنے والے دنوں میں اس پورے ریجن کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس کا اظہار نہ صرف پاکستان میں کیا جا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی خدشات بڑھ رہے ہیں۔افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر مودی سرکار بھی کشمیر کی سیاسی قیادت سے بات کرنے پر مجبور ہو گئی ہے جو پہلے مودی کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔

کیوں کہ اگر افغانستان میں شدت پسندی بڑھتی ہے تو اس کا اثر جموں کشمیر پر بھی پڑے گا جہاں پہلے ہی حالات قابو سے باہر ہیں۔اسی کے پیش نظر انڈیا پر پریشر ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرے تا کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔افغانستان میں ابھی بھی داعش اور ٹی ٹی پی کے فٹ پرنٹ موجود ہیں جو مستقبل میں روس ،چین اور پاکستان کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔اگر افغانستان کے حالات زیادہ خراب ہو جاتے ہیں تو افغان مہاجرین کامسئلہ شدت اختیار کرے گاجس کی تیاری اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت کسی نے بھی نہیں کی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ فاتح رہا ہے یا طالبان مگرسر پر منڈلاتا خطرہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :