انڈیا سے مذاکرات پس پردہ کیوں

جمعرات 22 اپریل 2021

Faraz Khan

فراز خان

خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق جنوری میں انڈیا اور پاکستان کے انٹیلی جینس حکام نے دوبئی میں ملاقات کی ہے جس میں کشمیر میں کشیدگی کو کم کرنے سمیت دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے پر بات ہوئی ہے۔ادارے نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ اسی ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکہ میں موجود متحدہ عرب امارات کے سفیر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں متحدہ عرب امارات ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ابھی حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے بھی اس جانب اشارہ کیا تھا کہ روس پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔

(جاری ہے)

مگر دوسری جانب انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے دونوں جانب نہ ان خبروں کی تصدیق ہو رہی ہے اور نہ ہی تردید۔

خفیہ سفارت کاری کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دونوں ممالک سمجھیں کہ وہ کسی منطقی انجام تک اس وقت ہی پہنچ سکتے ہیں جب ان پر رائے عامہ اثر انداز نہ ہو رہی ہو۔ اس طرح کی سفارت کاری کسی تیسرے ملک کی خواہش پر بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ انڈیا پاکستان کے درمیان مذاکرات میں امریکہ اور خلیجی ممالک کا نام آ رہا ہے۔اس سے پہلے بھی انڈیا پاکستان کے درمیان خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں پچھلے دور حکومت میں سر تاج عزیز صاحب اپنے انڈین ہم منصب سے بنکاک اور دیگر جگہوں خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک بیک ڈور ڈپلومیسی کا سہارا کیوں لے رہے ہیں اور کیا اس طرح کی ملاقاتیں تعلقات میں بہتری لا سکتی ہیں؟پہلے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے آپ کو دونوں طرف کی سیاسی اشرافیہ کی موقع پرستی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔پہلے سرحد پار چلتے ہیں۔نریندر مودی اکیسوی صدی کی قوم پرستانہ لہر سے فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آئے جیسے ڈونلڈٹرمپ امریکی عوام کے نسلی جذبات سے فائدہ اٹھا کر طاقت کے ایوانوں تک پہنچ گئے۔

اگر چہ نریندر مودی کے پاس دکھانے کو گجرات کی ترقی بھی تھی جہاں وہ وزیراعلی تھے لیکن ان کی الیکشن کمپین مسلما نوں کے خلاف نفرت،پاکستان کے خلاف زہر اگلنے اور ہندتوا کے پر چار پر مبنی تھی۔جب وہ اقتدار میں آئے تو انہی وعدوں اور نعروں پر چلنے کی بھر پور کوشش بھی کی۔کبھی انہوں نے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کر کے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاوں کو روکنے کی دھمکی دی ۔

کبھی یہ بڑھک لگائی کہ گلگت بلتستان ہمارا ہے اور پاکستان کا اس پر ناجائز قبضہ ہے۔پٹھانکوٹ ،پلوامہ اور اڑی جیسے حملوں کا الزام محض حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان پر تھونپ دیا گیا۔اس کے علاوہ انڈیا میں مسلمانوں کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔یہ تمام تر اقدامات ان کی خواہش سے زیادہ ان کی سیاسی مجبوری تھی کیوں کہ ان کی پشت پر آرایس ایس جیسی تنظیمیں ہیں جن کا مقصد انڈیا کے سیکولر تشخص کو ختم کرکے ہندتوا کو فروغ دینا ہے۔

ان تمام تر قوتوں نے مودی کو مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے رکھیں تا کہ ان کا مخصوص ووٹ بینک خراب نہ ہو۔اسی وجہ سے انہوں نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیالائن آف کنٹرول پر حالات کو خراب کئے رکھا اور انڈیا میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کا الزام پاکستان پر دھر کر فروری اٹھائیس جیسے حالات پیدا کئے۔جب سے مودی حکومت آئی ہے سوائے ان کے ایک نجی سطح کے دورہ پاکستان کے علاوہ اب تک کوئی اعلی سطح کا دورہ نہیں ہوا۔

سارک کانفرنس جس کی میزبانی پاکستان نے کرنی ہے انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔لیکن مقامی سیاست اور بین الاقوامی سیاست میں فرق ہوتاہے اور کبھی کبھار بین الاقوامی سیاست کی خاطر مقامی سیاست کو قربان کرنا پڑ جاتاہے۔جیسے ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جون انگ ایک وقت میں ذاتی دشمن بن چکے تھے اور ایک دوسرے کو راکٹ مین اور طرح طرح کے القابات سے نوازتے رہے اور پھر یہی اشخاص ایک دوسرے کے بغل گیر بھی ہوتے رہے۔

یہاں پر بھی دونوں اطراف کی قیادت عوام کی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے دشمنی کی ہر حدیں پار کر جاتے ہیں اور جب جذبات ٹھنڈے ہوتے ہیں تو ان کو لگتا ہے ہمسائیگی کا لطف امن میں ہی رہ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں بھی مودی کو ہٹلر سے ملایا جاتا رہااور ان کے سیاسی عزائم کو نازی ازم سے تشبیہ دی جاتی رہی۔انڈیا سے تجارتی تعلقات کو معطل اور سفارتی تعلقات کو ڈی گریڈ کیا گیا اور انڈین فلموں پر پابندی لگائی گئی۔

اگرچہ ان کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ موجود تھی جوکہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ کو پتا تھا کہ یہ معاملہ جنگ یا سفارت کا ری کے بغیر حل نہیں ہو سکتا اور بقول آپ کے کہ جنگ کسی مسلئے کا حل نہیں ہے تو عوام کے جذبات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کی کیا ضرورت تھی۔کیا ہر جمعے کو چندمنٹ کی خاموشی اس لئے تھی کہ انڈیا سے مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے ۔

اب ہمیں ہوش آتا ہے کہ جو چینی اور کاٹن باہر سے منگوا رہے ہیں اس سے کئی گنا سستا ہمیں انڈیا سے پڑتا ہے تو اس وقت فرط جذبات میں آکر انڈیا سے تجارت کیوں ختم کی۔اگر دونوں اطراف کی قیادت نے اس وقت سیاسی پختگی اورمعاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا ہوتا اور عوامی جذبات کو نہ ابھارا ہوتا تو آج ان خفیہ ملاقاتوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔دوسری طرف مودی کا بھی خیال تھا کہ وہ ایشیاء میں ون مین شو بن سکتے ہیں اگر وہ چین اور پاکستان کوہیچ کر لیں لیکن چین کے ساتھ مخاصمت میں ان کو سمجھ آگئی کہ ایک وقت میں ایک ہی محاذ پر لڑا جا سکتا ہے۔

اسی سبق کی وجہ سے وہ لائن آف کنٹرول پرحالات نارمل کرنے پر مجبور ہوئے۔افغانستان میں بدلتی صورتحال،چین کو انگیج کرنے کے لئے کواڈ کا قیام اور کشمیر میں کشیدہ صورتحال انڈیا کو مجبور کر رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کئے جائیں۔
ان خفیہ ملاقاتوں میں توقع کی جارہی ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی اور سفارتی تعلقات کو معمول کی سطح پر لایا جائے گا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کوشش جاری ہے کہ پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں مودی کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے انڈیا پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ جو آئینی حیثیت 5 اگست 2019سے پہلے کشمیر کی تھی اس کو بحال کیا جائے کیوں کہ اسی صورت میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :