ہمارے نظریات

پیر 28 جون 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

ہمارے نظریات ہمارے خیالات اور ذاتی تجربات ہیں جو ہم اپنے، دوسروں اور اپنے اطراف کی دنیا کے بارے میں رکھتے ہیں۔ یہ ہماری شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں، ہمیں خوشی یا غم، صحت یا بیماری، تعلقات میں کجی یا محبت پیدا کرنے، ہمارے رویے کو بنانے یا بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمارا بنیادی نقطہ نظر ایک دن میں تشکیل نہیں پاتا بلکہ اس کی تشکیل کا عمل انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے اور ایک ایسا وقت آتا ہے کہ آپ کی سوچ یا آپ کا بنیادی نقطہ نظربے لچک ہوجاتا ہے اور اس میں تبدیلی کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے۔


ہمارے نظریات ایک طرح کے خودکار دماغی پروگرام ہیں اور ایسی مشین کی طرح ہیں جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں کس طرح زندہ رہنا ہے اور کس طرح زندگی میں آگے بڑھنا ہے؟ہمارے نظریات ہمارے تشخص (انا) کو بھی جنم دیتے ہیں اور اسے قائم رکھنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں بچپن کے نطریات کی روشنی میں تشکیل دیا جانے والا تشخص لچکدار یا غیر مستحکم ہوتا ہے، لیکن بالغ ہونے تک آپ کا تشخص ایک خاص سانچے میں ڈ ھل چکا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ نظریات حقیقی واقعات اور اکثر اوقات زندگی اور اپنے بارے میں غیرحقیقی تصورات کی روشنی میں تشکیل پاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے نظریات ہماری بچپن کی تعلیم وتربیت، فیملی، معاشرتی اقدار اور مذہب سے زیادہ متاثرہوتی ہیں اس لئے اس بات کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے کہ ہمارے اکثر نظریات بہت زیادہ حقیقی نہ ہوں۔ لیکن اکثر اوقات یہ نظریات چیلنج نہیں کئے جاتے، یہ ذہن میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور راسخ ہو جاتے ہیں
ہمارے حافظہ میں محفوظ بچپن کے واقعات ہماری سوچ پر اثرانداز ہوتے ہیں ہمارے نظریات کو مستحکم کرتے ہیں اور پھر وہ نظریات ہمارے رویے میں نمایاں ہوتے ہیں۔

اگر ہم کسی صورت اپنی سوچ میں تبدیلی لے آئیں، اپنے بنیادی نظریات کو بدل لیں تو ہمارے رویے بہتر ہو سکتے ہیں۔
ہمارے اپنے بارے میں ہمارے منفی عقائد ہمارے اندازِ فکر کو ہم جس طرح دوسروں کو اور دنیا کو دیکھتے ہیں اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر ہم خود کو منفی عدسے سے دیکھیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسی عینک پہن رکھی ہے جس کے شیشے صاف نہیں ہیں۔

اسکے نتیجے میں ہمیں جو بھی دکھائی دے گا وہ غیر واضح اور دھندلا ہو گا۔ وہ تمام لوگ جو اپنے بارے میں منفی عقائد رکھتے ہیں وہ دوسروں کو اور دں کو بھی بد اعتمادی سے دیکھتے ہیں۔
آئے دیکھتے ہیں کہ ایک واقعہ جس کو دولوگ مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نظرئے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟
ایک مشہور مصنف نے اپنے مطالعے کے کمرے میں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا
گزشتہ سال میرا آپریشن ہوا  اور پتا نکال دیا گیا۔

بڑحاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا  ہو کر رہنا پڑا
اسی سال  میری عمرساٹھ سال ہوئی ہے اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدو ش ہونا پڑا۔ میں ے نشرو اشاعت کے ا س ادارے میں  اپنی زندگی کے تیس سال گزارے  ۔ اسی سال مجھے اپنے والد صاحب کی  وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا
اسی سال میرا بیٹا  میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اسے کئی ماہ تک  پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہو جانا ایک علیحدہ سے نقصان تھا۔


صفحے کے نیچے اس نے لکھا۔
" آہ!کیا ہی برا سال تھا:"
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خا موش بیٹھا خلاؤ ں میں گھور رہا تھا۔ اس  نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے کاغذ پر سب کچھ لکھا دیکھ لیا تھا۔ خاوند کو اس کے حال پر چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد وہ لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جسے لا کر اس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر رکھ دیا تھا۔

خاوند نے کاغذ دیکھا تو اس پر لکھا تھا
گذشتہ سال آخرکار مجھے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلارہا
میں اپنی پوری صحتمندی اورسلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہو گیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنا وقت کچھ بہتر لکھنے کے لئے استعمال کر سکونگا۔
 اسی سال میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔


اسی سال اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور اسیے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی مگر میرا  بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔
 آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی
 " واہ ایسا سال  جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا"
ملاحظہ کیجئے: بالکل وہی حوادث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نظر سے۔


بالکل  اسی طرح  اگر، جو کچھ ہو گزرا ہے، اسے اسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے برعکس ہوتا تو، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائیں گے۔اگر ہم بظاہر کچھ کھو بیٹھے اسے مثبت زاوئے سے دیکھیں تو ہیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔
اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
" اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن اس میں سے اکثر شکر ادا  نہیں کرتے۔"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :