مائیکرومومینٹس

پیر 19 جولائی 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

مائکرومومینٹس کوسادہ الفاظ میں مختصر لمحات , محدود وقفہ یا ایک چھوٹی ٹائم ونڈو بھی کہاجا سکتا ہے ۔ بظاہر ان لمحات کا دورانیہ مختصر ہے لیکن ان کے اثرات بعض اوقات پوری زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں
Micro- Moments
کی اصطلاح آج کل سیل فون ، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک پراڈکٹ کی مارکیٹنگ میں زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔
یہ ایسے لمحات ہیں جس میں خریداد پوری طرح تیار ہوتا ہے کہ اسے اپنی ضروریات سے مطابقت رکھتی ہوئ کوئ اچھی اور سستی ڈیل مل جائے۔

بیچنے والے یا سیلز مین کے لیے بھی اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے کا بہترین موقعہ ہوتا ہے۔
اس چھوٹی سی ٹائم ونڈو کی اہمیت آپ ان لوگوں سے پوچھیں جو کسی بھی صورت سی پی آر یا فرسٹ ایڈ کی خدمات سے وابستہ ہیں۔
" ہمارےاہک جاننے والے اپنے آ فس میں میٹنگ کے دوران ہارٹ اٹیک کے باعث زمین پر گرے اور بے ہوش ہوگئے ۔

(جاری ہے)

خوس قسمتی سے سٹاف میں ایک سی پی آر کا تربیت یافتہ سٹاف ممبر بھی تھا۔

اس نے فوری طور پر سی پی آر کی ٹیکنیک استعمال کرنی شروع کی اور جب تک ایمبولینس آ ئ، ان صاحب کا تنفس کسی حد تک بحال ہونا شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر انہیں بر وقت سی پی آر کی سہولت میسر نہیں آتی تو موصوف کی جان کے لالے بھی پڑ سکتے تھے"
۔ ہم بالمشافہ ملاقاتوں میں کسی کو بھڑک کر جواب دیتے ہیں، کسی کو اس کی اوقات بتاتے ہیں، اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں اور اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر ہیں جو کبھی واپس تو نہیں آتے لیکن بعض دفعہ نا قابل تلافی نقصانات اور پچھتاوا مقدر کر دیتے ہیں ۔
- مہر کی رقم ایک لاکھ رکھیں ، ورنہ آپ بارات واپس لے جا ئیں ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ بارات واپس چلی گئی۔ لڑکی کئی سال سے گھر پر بیٹھی ہو ئی ہے۔ موصوف جو اپنا آخری فیصلہ سنا چکے تھے ، اب دل کے مریض ہیں
- دس سال سے زیادہ پرانے ڈرائیور کو اس لئے باہر کا راستہ دکھا دیا کہ وہ تنخواہ بڑھانے کی بات کر رہا تھا۔

ڈرائیور کو فورا ہی زیادہ تنخواہ پر برابر والے گھر میں ہی ملازمت مل گئی۔ چھ مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں ، موصوف کو ابھی تک کوئی ڈرائیور  نہیں ملا۔ پرانے ڈرائیور کو دیکھتے ہیں اور کڑھتے ہیں۔
- بیٹے سے ناراض ہوئے تو کہہ دیا کہ وہ گھر سے فورا  دفع ہو جائے ۔ بیٹے کو گھر سے دفع ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا۔ تلاش گمشدہ کے اشتہاروں سے لے کر تعویز گنڈوں تک کی نوبت آ گئی ہے، لیکن بیٹے کا پتہ نہیں چلا
- پڑوسی نے گیٹ کر سامنے گاڑی پارک کر دی ، جناب نے پولیس کو فون کر کے  گاڑی اٹھوادی ۔

پڑوسی نے بھی سفارش لگا کر ان کے خلاف ہے پرچہ کٹوادیا۔ اب جناب ہر دو چار دن کے بعد پولیس سٹیشن میں حاضری دیتے ہیں ۔
محلے میں رہنا دوبھر ہو گیا ۔ ہر طرف مذاق بنتا ہے۔ کسمساتے ہیں ، خود ہی کو کوستے ہیں کر کچھ نہیں پاتے
ہم  اپنے سیل فون پر ان مختصر لمحات کی کھڑکی کو استعمال کرتے ہوئے کسی ٹیکسٹ کا جواب دیتے ہیں، فیس بک پر کمنٹ لکھتے ہیں یا کہیں میسج چھوڑ دیتے ہیں۔

اکثر اوقات ہم اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ ہمارا لکھا ہوا ایک چھوٹا سا جملہ کسی دوسرے شخص کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب لا سکتا ہے۔ اسی طرح سیل فون پر آ ئی ہوئی کسی کال کو ہم کس موڈ یا جذبات کے تحت سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔
ڈیوڈ آفس میں کام میں مصروف تھا کہ اس کے سیل فون پر وطن سے باپ کی کال آ گئ ۔ ڈیوڈ جھنجھلا گیا۔ اس نے باپ سے کہا کہ وہ شام کو بات کرے، اس وقت اس کے پاس ٹائم نہیں ہے۔

شام میں ڈیوڈ کی بہن کا فون آ یا کہ ابا گزر گئے۔ ڈیوڈ اب اپنے ضمیر کا قیدی ہے۔ اس پر ہر دوا بے اثر ہے۔
ان مختصر لمحات کے منفی اثرات سے بچنے کا ایک آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے کہ جذبات کے اثر فوری جواب دینے کے بجائے تھوڑا توقف کریں ، دل ہی دل میں 10 سے 20 تک کی گنتی کریں۔ جواب دینے کے بعد تھوڑی دیر سوچیں کہ آپ نے کیا کہا ہے؟ اگر بات مناسب نہیں لگ رہی تو اس کا تدارک کرنے کی کوشش کریں، انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔
تو میرے دوستو! اس مختصر ٹائم ونڈو کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ سوچ سمجھ کر استعمال کریں، یا نظر انداز کر دیں ۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ مجھے اجازت دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :