تھینک یو جج صاحب

بدھ 12 دسمبر 2018

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

6دسمبر کو سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کوساتویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا یہ عجیب اتفاق ہے کہ مجھے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کی عدالت میں پہلی سماعت جس کے نتیجے میں انہیں پہلی مرتبہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے پاس بھیجا گیا اور ساتویں پیشی جس کے فیصلے کے بعد نیب کی ریمانڈ مسترد کر کے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔

مجھے دونوں سماعتوں میں عدالت کی مکمل کاروائی سننے کا موقع ملا۔
صدر پاکستان مسلم لیگ ن شہباز شریف کوریمانڈ پر کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیاہے اس سے پہلے نیب کے سیل میں انہوں نے بائیوگرافیز سمیت فلسفے ،سیاسیات پردرجنوں کتابیں پڑھ ڈالی ہیں،وہ کتاب پڑھتے ہوئے باقائدہ نوٹس لیتے ہیں۔ان دنوں وہ ہنری کسنجر کی کتاب ورلڈ آرڈر،آسٹریلین پائلٹ پاؤل کی Reach for the sky اور اسرائیلی مصنف کی 21 Lessons for the 21st Century پڑھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)


احتساب عدالت میں شہباز شریف کی پہلی پیشی میں کمرہ عدالت میں پہنچنے کے لیے مجھے صبح 6بجے عدالت کا گیٹ عبور کرنا پڑا تھابصورت دیگر کمرہ عدالت تک پہنچنا ممکن نہ رہتا اس بات کا احساس سماعت کے بعد باہر رہ جانے والے دوستوں نے مجھے دلایا تھا۔ ساتویں پیشی پر مگر میں نیند کے ہاتھوں بے بس تھا اور عدالت کے مرکزی گیٹ پر پہنچنے پر گھڑی مجھے 8;40 کا وقت بتارہی تھی۔

کورٹ رپورٹرز اچھی طرح جانتے ہیں اہم سماعت پر اتنی دیر سے پہنچنے کا مطلب خبر آپ کے ہاتھ سے گئی ،کے مترادف ہے۔مگر میری خوش بختی کمرہ عدالت کے باہردیوار بنے پولیس اہلکاروں کو عبور کرکے میں اندر پہنچ گیا۔کمرہ عدالت کے چاروں ا طرف میں پولیس کے اہلکاربڑی تعداد میں موجود تھے۔
عدالت میں شہباز شریف کے پرسنل سٹاف کے لوگ اور چند وکلاء کے ساتھ کچھ رپورٹرز کرسیوں پر براجمان تھے۔

کمرہ عدالت میں سکون کا سماں تھا۔ کچھ دیر بعد ن لیگ کے رہنما خواجہ حسان ایک پولیس آفیسر کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے انہیں کسی نے اپنی کرسی پہ بٹھا دیا۔کوئی پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ وہی پولیس آفیسر دوبارہ آیا اور خواجہ حسان کے کان میں سرگوشی کرکے انہیں باہر اپنے ساتھ لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آفیسر دوبارہ آیا اور کہنے لگا خواجہ حسان صاحب کے ساتھ کون آیا تھا کسی نے جواب نہیں دیا میں نے پہلو بدلا تو آفیسر نے مجھے مخاطب کیا ’’آپ ان کے ساتھ ہیں‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں میں تو آپ کے احترام میں کھڑا ہونے لگا تھا‘‘ جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ گونجا۔

کچھ وقت گزرا دروازے پر ہلچل ہوئی ،دروازہ کھلا تو اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز اندر داخل ہوئے وکلاء اور صحافیوں سے ہاتھ ملایا پہلی قطار میں موجود کرسی ان کے لیے خالی کی گئی جہاں وہ بیٹھ گئے۔ گھڑی کی سوئیاں10کے ہندسے کے پاس تھیں کہ عدالت کے باہر باقائدہ شور ہوا دروازہ کھولا گیا کچھ دھکم پیل ہوئی اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

پہلی قطار میں حمزہ شہباز کے بالکل ساتھ بائیں طرف والی نشست پر شہباز شریف بیٹھ گئے۔ شہباز شریف حمزہ شہباز سے ،اس کے بعد اپنے سٹاف آفیسر عطااللہ تارڑ سے بعد ازاں اپنے وکیل امجد پرویز سے سرگوشیوں میں مشاورت کرتے رہے جبکہ اس دوران کمرہ عدالت میں صحافی ان کی فوٹیج بنانے اور وکلاء شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کرسیوں کے پیچھے کھڑے ہوکر تصاویر بنوانے میں مصروف رہے اسی اثناء میں جج نجم الحسن عدالت میں تشریف لائے۔

سماعت شروع ہوئی نیب کے وکیل نے دلائل دینے کا آغاز کیا تو کمرہ کے باہر نعرے بازی شروع ہوچکی تھی،پھر باقائدہ کسی جوشیلے متوالے نے خطاب شروع کردیا جس پر جج صاحب نے سابق وزیراعلی پنجاب کوباہر کی جانب اشارہ کرکے مخاطب کیا ’’میں تو صرف ایک آواز ہی سن پارہا ہوں ‘‘جس پر حمزہ شہباز کھڑکی کی طرف بڑھے اور کارکنوں کو خاموش رہنے کا کہا مگر اس سے آوازوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔

نیب کے وکلاء نے وہیں سے سلسلہ جوڑا انہوں نے کہا مسرور انور اور مقصود ملک کا نام بار بار سامنے آرہا ہے جن کے اکاؤنٹس میں بڑی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں جو مشکوک ہیں ریکارڈ سے پتا چلتا ہے وہ شہباز صاحب کے ذاتی ملازم ہیں،جج نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا ’’مشکوک ٹرانزیکشن کے متعلق بتائیں‘‘ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ جن افراد کے نام عدالت کو بتائے گئے ہیں ان کی اکاؤنٹ کی تفصیلات میں موجودد ایڈریس سے پتا چلتا ہے وہ ان کے ذاتی ملازم ہیں جبکہ یہ ان کے اکاؤنٹس میں کی جانے والی ٹرانزیکشن کو ڈس اون کر رہے ہیں۔

نیب کے وکلاء کے دلائل کے دوران شہباز شریف نے کئی مرتبہ انہیں سوال کیا ایسا لگتا تھا جیسے وہ نیب کے وکلاء کی باتوں پر حیران ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں دوران سماعت پچھلی قطار میں سے کسی عورت کی آواز آئی ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ ۔شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اپنی بات کا آغاز ہی یہاں سے کیا کہ ان ناموں پر نیب پہلے سے کام کر رہایہ نام بتا کر عدالت کو کسی اور طرف لگایا جارہا ہے۔

نیب کے پاس عدالت کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے اتنے دن جسمانی ریمانڈ کے باوجود کچھ نہیں ملا۔سماعت جاری تھی کہ کمرہ عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی بڑھی تو جج صاحب نے شہباز شریف کو کارکنان کو چپ کروانے کا کہا جس پروہ کھڑکی کی جانب بڑھے اورمیں بھی ان کے پیچھے وہاں تک گیا۔ میاں شہباز شریف نے باہر موجود لوگوں کواپنی شہادت کی انگلی منہ پر رکھ کر چپ رہنے کا کہا،پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر انہیں خاموش رہنے کا کہا یہاں تک کہ انہیں کہنا پڑا’’پلیز شور نہ کریں خدا کا واسطہ شور مت کریں‘‘یہاں میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا مجھے یہ خبرلگی ،یہ بلاشبہ ایکسکلیوزیو فوٹیج تھی ،یہی وہ لمحہ تھا جسے میں نے اپنے موبائل کیمرہ میں محفوظ کرلیا۔

مگر عدالتی عملہ اورپولیس اہلکار میرے سر پہ پہنچ چکے تھے وہ میرے پاس آئے اور کہا ’’جج صاحب کا حکم ہے آپ کو باہر بھیج دیا جائے‘‘ میں نے کہا ’’ جی بہتر‘‘ ایسے میں جج صاحب کی آواز گونجی’’ اسے میرے پاس لاؤ‘‘ عدالت میں موجود مجمع ایک طرف ہٹ گیامیں جج صاحب کے دائیں طرف جبکہ شہباز شریف بائیں طرف کھڑے تھے۔اب میں عدالت کے کٹہرے میں تھا ،’’کون ہو تم کیا کرہے تھے‘‘معزز جج نے سوال کیا Sir I am journalist ,i am really soory میں نے انگلش میں جواب دیا۔

عدالت میں چند لمحوں تک خاموشی کا مکمل راج رہا پھر معزز جج نے اشارے سے ٹھیک ہے کا سگنل دیا میں نے دل ہی دل میں ’’تھینک یو جج صاحب‘‘ کہا اور پچھلی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ عدالت میں دلائل کا آغاز دوبارہ ہو چکا تھا شہباز شریف کے وکیل اپنے دلائل سے نیب کی قانونی ٹیم کو ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب لگنے لگا یا تو نیب کے وکلاء تیاری کے ساتھ نہیں آئے یا پھر واقعی دو ماہ کے جسمانی ریمانڈ کے بعد بھی انہیں شہباز شریف کی کرپشن سے متعلق کچھ نہیں ملا۔

نیب کے وکیل نے کہا مقصود ملک کے اکاؤنٹ میں ساڑھے تین ارب روپے آئے ہیں۔ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں یہ پیسے کیسے آئے،ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ پیسے کرپشن کے ہیں مگر ہمیں وقت دیا جائے تو ہم اس پر تفشیش کرنا چاہتے ہیں جس پر جج نے استفسار کیا’’اتنے دن آپ نے کیا،کیا آپ نے ان لوگوں کو بلایا؟ ابھی تک کیا ملا وہ بتائیں‘‘ شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جنوری 2018ء سے اس پر تحقیقات ہورہی ہیں ابھی تک نیب مفروضوں پر بات کررہی ہے۔

جس پر جج سید نجم الحسن نے کہا ’’ہم اس کیس کو جوڈیشل کررہے ہیں‘‘ اس کے ساتھ ہی خاتون وکیل نے خوشی کے مارے کہا’’تھینک یو جج صاحب‘‘ اس پر اس خاتون کو کسی نے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کمرہ عدات میں موجود صحافی،وکلاء کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں نے شہباز صاحب سے ہاتھ ملا کر انہیں مبارک باد دی۔
میں نے اس شخص کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جس نے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی مجھے کہا تھاکہ شہباز شریف جوڈیشل ریمانڈ پر جائیں گے ،مجھے پہلی سماعت والے وہ وکیل صاحب بھی یاد آئے جنہوں نے
سماعت کے فورا بعد مجھے بتایا تھا کہ نیب کے پاس جسمانی ریمانڈ پر اتنے دن کے لیے بھیجا جائے گا۔

مجھے خاتون وکیل کے الفاظ یاد آئے میں دل ہی دل میں ’’تھینک یو جج صاحب‘‘ کہتا ہوا عدالت سے باہر آگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :