کراچی دو بہنوں کی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث مفرور پولیس اہلکار کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری

پیر 2 اگست 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

کراچی کے علاقے تھانہ ملیر سٹی کی حدود میں اغواء ہونے والی دو سگی بہنوں کے اغواء کاروں کا ایک اور مہرہ پولیس کے ہاتھ گیا۔ شاطر ملزم کو اغواء برائے تاوان میں ملوث پائے جانے کے بعد ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ہاہم معطلی کے باوجود ملزم ڈسٹرک ساوّتھ میں ٹریفک سیکشن میں تعینات رہتے ہوئے ملازمت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔

مذکورہ واقعہ میں بھی ملزم چھٹی کی غرض سے ایس پی ساوّتھ کے روبرو حاضر ہوا، لیکن ایس پی ڈسٹرکٹ ساوتھ نے عرضی منظور کرنے کے باجود نامزد ملزم کا سروس ریکارڈ چیک کرنا چاہا تو مفرور ملزم احمد نواز کے کالے کرتوت کی قلعی کھل کر سامنے آگئی، اس پی ساوّتھ نے ملزم احمد نواز کا کریمنل ریکارڈ سامنے آنے کے بعد جس میں وہ ملیر سٹی سے اغواء برائے تاوان ہونے والی سگی بہنوں کے کیس میں مفرور اور اشتہاری تھا ایس پی ڈسٹرکٹ ساوّتھ نے ملزم کی جانب سے چوھے بلی کا کھیل کھیلے جانے کے والے کھیل کو اختتامی مراحل پر پہنچاتے ہوئے خفیہ طریقے سے گرفتار کرنے کے لئے حکمت عملی تیارکر لی مذکورہ ملزم کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے  فی الفور تھانہ ملیر سٹی کو مطلع کر دیا۔

(جاری ہے)

واضع رہے مذکورہ ملزم احمد نواز 21 اکتوبر 2020 کو ہونے والے دو سگی بہنوں کے اغواء برائے تاوان میں ملوث پایا گیا تھا جس کی گرفتاری کے لئے جگہ جگہ چھاپے بھی مارے جاچکے تھے مگر احمد نواز نے مفرور رہتے ہوئے اپنی ملازمت کو جاری و ساری رکھے ہوئے تھا، اغواء برائے تاوان کی اس واردات کا ماسٹر مائنڈ عرفان اللہ کاظمی تھا جو اس پوری اسپیشل ٹیم کا مرکزی کردار تھا، جس نے دو بہنوں 22 سالہ ساجدہ اور پندرا سالہ حمیدہ اغواء کیا اور بعد ازاں ان کے گھر والوں کو سرکاری پولیس موبائل نمبر SP-D332 کے ذریعے اغواء کیا اور بعد ازاں لڑکیوں کےگھروالوں سے رہائی کے بدلے  10 لاکھ کا تاوان کا مطالبہ کیا۔

سگی بہنوں کے اغواء کے بعد لڑکیوں نے پولیس موبائل میں شور مچانا شروع کیا تو پولیس کی وردی میں چھپی کالی بھیڑوں نے لڑکیوں کے گلے، اور کان سے سونے کے ذیورات اور پرس سے نقدی چھین کر فرار ہوگئے، واقعہ کے اطلاع ملنے کے بعد اہل خانہ نے تھانہ ملیر سٹی سے رجوع کیا اور مذکورہ واقعہ کی ایف آئی آر 400/20 جمع کروا دی، تاہم پولیس نے سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

ایف آئی آر درج ہونے کے باجود اس پورے واقعہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو اہل خانہ نے جس کا بھائی قطر میں ہوتا ہے ایک نجی ادارے کے اورسیز نمائندے فرقان سائر سے رابطہ کیا اور پوری صورتحال بتائی صحافی فرقان احمد سائر نے اس پورے واقعہ کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت دیگر شواہد اکھٹے کرنے کے بعد کم سن بچیوں کے اغواء کے معاملے کو تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے اس سنگین معاملے کو اجاگر کیا۔

واقعہ کی سنگین نزاکت دیکھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کو ہائی لائٹ کیا۔ پاکستان کی معزز عدالتوں نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیا۔
شعبہ تفتیش اپنے دائرہ کار اور میڈیا کی نشاندہی پر پولیس کی کالی بھیڑوں کا سراغ لگانا شروع کر دیا جس میں گروہ کا سرغنہ سب انسپیکٹر عرفان اللہ کاظمی، اے ایس آئی عبدالطیف، کانسٹیبل اویس نعیم، ہیڈ کانسٹیبل لیاقت علی، کانسٹیبل احمد نواز، اور پرائیوٹ بیٹر جس کا نام عمران خان کے علاوہ کرائے پر حاصل کی جانے والی خاتون شامل تھی تفتیش میں شامل کر لیا، واقعہ پوری طرح ہائی لائٹ ہوچکا تھا جس کے باعث تھانہ ملیر سٹی نے کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے مدعی کی نشاندھی پر لیاقت علی اور عمران کو گرفتار کر لیا، اس گرفتاری کے نتیجے میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں استعمال ہونے والی سرکاری موبائل بھی قبضے میں لے لی، ہیڈ کانسٹیبل لیاقت علی نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تمام واقعہ کی روداد بیان کر دی، ایک طویل عرصے کے بعد اس واقعہ میں ایک موڑ یہ آیا کے اس واقعہ میں ملوث تیسرا ملزم جس کا نام احمد نواز ہے ڈرامائی انداز میں گرفتار کر کے اس سلسلے کی ایک کڑی کو اور جوڑ دیا ہے۔

تاہم سگی بہنوں کے اغواء برائے تاوان کی اس بڑی واردات کا مرکزی ملزم عرفان اللہ کاظمی جس کی رہائش شاہ فیصل کالونی اور تعیناتی تھانہ لانڈھی میں بتائی جا رہی ہے تاحال مفرور ہے۔ محکمہ پولیس کا تفتیشی افسر ہر ممکنہ طریقے سے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، عرفان اللہ کاظمی جیسے مجرمانہ فعل سر انجام دینے والے افراد محکمہ پولیس کے لئے انتہائی رسوائی اور بدنامی کا باعث ہیں جن کے باعث پولیس میں آگنائزڈ جرائم جاری و ساری ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :