نظریہ پاکستان اور ہم

منگل 13 اپریل 2021

Ghulam Ul Arifeen Raja

غلام العارفین راجہ

بلاشبہ دینِ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ جس نے ہمیں پیدائش سے لے مرنے کے بعد دفانے تک کے تمام مسائل اور ادوار کے طریقہ کار بتائے ہیں۔ اسلام ہی ہماری بقاء ہے۔ اس کے بغیر انسان کی زندگی نامکمل ہے۔ بیانیانِ پاکستان نے الگ ریاست کے قیام کے لئے جس نظریہ کو بنیاد بنایا وہ دینِ اسلام ہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح رح اور علامہ اقبال رح سمیت تمام نے پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی۔

اور فیصلہ کیا کہ ہم ایک اسلامی و فلاحی ریاست قائم کریں گے۔ جہاں تمام لوگوں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی عبادات کرنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مقدس اسلامی ہستیوں کی توہین کریں یا اسلام کے نام لینے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرے۔

(جاری ہے)

اگر ہم یوں کہے کہ نظریہ اسلام ہی پاکستان کے وجود کی وجہ ہے تو ہرگز غلط نہ گا۔

وطنِ عزیز پاکستان لے قیام کے وقت اکابرین نے ہر جگہ پاکستان کے وجود کی وجہ دینِ اسلام بیان کی۔ تا کہ مسلمانوں کی ایک الگ ریاست ہو جہان وہ اسلامی عبادات اور تعلیمات کو نظام زندگی اور نظام حکومت کے ہر شعبے میں قائم کر سکیں۔ برصغیر میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ایک انتہائی مشکل اور کٹھن کام تھا جس کو اکابرین نے بڑی جانفشانی کے ساتھ کیا۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے الابرین جیسے جیسے وصال کرتے گئے اس طرح نطریہ پاکستان کو بھی ہم ساتھ ساتھ دفناتے گئے۔ جس کی وجہ سے نئے نئے عجیب طرح کے نظریات متعارف کروائے جاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہم نطریہ پاکستان ہی بھول گئے کہ ہم نے یہ وطن کیوں اور کس وجہ سے حاصل کیا تھا۔ آج ہم نظریہ پاکستان سے کوسوں دور ہو گئے ہیں۔

ہماری ترجیحات میں اسلامی نظام کی بجائے مغربی نظام اور کلچر نے جگہ لے لی ہے۔ آج ہم اپنے مقصد سے ہٹ کر بیرونی اور لادینیت کی طرف چل پڑے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی و عریانی مکمل سریت کر چکی۔ ہمارے معاشرے میں لاقانونیت اپنی حد تجاوز کر گئی ہے۔ جہاں غریب اور کمزور لوگوں قانون تو لاگو ہوتا ہے مگر طاقتور طبقہ آج بھی قانون کی گرفت میں نہیں آتا جس کی وجہ سے کمزور طبقہ کمزور سے کمزور تر اور طاقتور طبقہ طاقتور سے طاقتور ترین بنتا جا رہا ہے۔

سماجی برائیاں دن بدن بڑھاتی جارہی ہیں
 باقی کی کسر سیاسی عدم ااستحکام نے نکال دی ہے۔  ہم نے اپنوں کا نظریہ چھوڑ کر اغیار کے نظریات پر چلنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈال دیا دیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نظریہ پاکستان پھر قوم میں عام کیا جائے لوگوں کو نظریہ پاکستان کی اہمیت بتائی جائے۔ نظریہ پاکستان سیمینار کروائیں۔

سکول و کالجز میں خصوصی لیکچرز ہوں تا کہ نئی نسل میں  نظریہ پاکستان فروغ حاصل کر سکے۔ ریاست پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشور میں نظریہ پاکستان کو شامل کرنا لازم قرار دیا جائے۔ ہمیں اہنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے مضبوط منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ اس کے لئے کافی محنت اور تگ و دو کرنی ہو گی۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رح کا شعر ہے کہ
رازِ حیات پُوچھ لے خِضرِ خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ نا تمام سے
تشریح:
زندگی کا بھید مبارک قدم والے خضرؑ سے پوچھ۔

وہ بتائیں گے کہ ہر چیز اسی وقت تک زندہ ہے جب تک اس کی کوشش ختم نہ ہو۔ جونہی کوشش ختم ہو گی زندگی کی بساط بھی لپیٹی جائے گی۔(شرح غلام رسول مہر)
اس شعر میں جدوجہد، حرکت اور کوشش کا سبق دیا گیا ہے۔ کائنات کی ہر شے صرف تگ و دو کی بنا پر زندہ ہے۔ ہمیں بس نظریہ پاکستان کی بقاء کے لئے کوشش جاری رکھنی ہے باقی اللہ پاک ہماری جدوجہد کو رائگان نہیں جانے دے گا۔
ہماری بقاء سمیت ہمارا سب کچھ نظریہ پاکستان سے وابستہ ہے اس بات کو ہمیں سمجھنا ہو گا بصورت دیگر بہت دیر ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :