اراکین اسمبلی کی تنخواؤں میں 125فیصد اضافے کی سفارش

جمعرات 14 مارچ 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان کے مجھ جیسے پڑھے لکھے جاہل عوام کو تویقین آگیا ہو ان پڑھوں (بشمول ان پڑھ اراکین اسمبلی جو لکیر کے فقیر ہوتے ہیں) سے کوئی شکوہ نہیں اس لیے کہ وہ ہاں میں ہاں ۔یعنی ”یس سر“کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں ۔ہمارے منتخب عوامی نمائندے اگر ہم کہیں کہ وہ قوم وطن اور عوام کے اجتماعی مفاد کیلئے منتخب ہوکر اسمبلی میں آتے ہیں تو یہ ہماری جہالت کی انتہاء ہے اس لیے کہ اراکینِ اسمبلی اپنے مفادات اور مراعات کے علاوہ کسی کو نہیں سوچتے اور اس کا ثبوت پوری قوم کے سامنے ہے ۔

قومی اسمبلی میں اراکین اسمبلی کی تنخواہ اور الاؤنس میں صرف اور صرف ایک سو25فیصد بڑھانے کی سفارش کی گئی ۔حکمران جماعت اور اپوزیشن نے اتفاقِ رائے سے انتہائی مسرت میں ڈیسک بجا کر بھرپور اتفاقِ رائے کا اظہار کیا جبکہ پاکستان کے مزدور طبقہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ سالانہ بجٹ میں 10سے 15فیصد بڑھا کر حکمران عوامی دوستی کے گیت گاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پوری قوم اراکین اسمبلی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ہر اجلاس میں دیکھ رہی ہیں ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اجلاسوں میں دست وگریبان ہوتے ہیں ان کی آوازیں ا ایسی گونجتی ہیں جیسے شام کو پرندے درختوں میں شور مچاتے ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔اتفاقِ رائے سے قومی بل اورقانون سازی ان کی شان کے خلاف ہے حکمران چاہے قوم اور ملک کیلئے کتنا ہی بہتر سوچے اپوزیشن ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر جاہلوں کی طرح بولتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے ہنستے ہیں ایک دوسرے پر ،ایسی شانِ بدتمیزی پر اُترے آتے جیسے پاگل،پاگل خانوں میں ۔

پوری قوم دیکھ رہی ہے دیکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے اپنے لیے نہیں سوچتی جب بھی سوچتی ہے اپنی جماعت کو سوچتی ہے چاہے اس نے اپنے ضمیر کو وجود میں تالا لگا سُلادیا ہو، بلکہ اگر کہا جائے کہ ان کے ضمیروں کا انتقال ہوچکا ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔
حکمران جماعت نے اگر یہ سوچا ہو کہ اگر ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کردینے سے اپوزیشن اور حکمران جماعت کے بھوکوں کی بھوک مٹ جائے گی، عوامی نمائندے خاموش ہوجائیں گے جس طرح پیپلز پارٹی اپنی حکمرانی کی شان کیلئے MQMکے قائد الطاف حسین کے بولنے پر اُس کے منہ میں کچھ دے کر اُس کی بولتی بند کر دیا کرتی تھی یہ حکمران جماعت کی بھول ہے درندے کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو وہ خونخوار ہوجاتا ہے آج کی پارلیمنٹ میں95فیصد اراکین اسمبلی پہلی بار نہیں کئی بار منتخب ہوچکے اپنے مفادات کی سیاست میں پارٹیاں بدلتے ہیں ۔

حکمران جمات میں اندازہ لگائیے حکمران جماعت کی کابینہ کو سو چئے کیا یہ لوگ پہلی بارعوامی نمائندے منتخب ہوئے ہیں لیکن قصور کس کا ہے قصور تو ہم عوام کا ہے ۔ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ خدا اُس قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک قوم اپنی حالت کو نہیں بدل لیتی ۔ہم سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ذہنی غلام ہیں اور جب تک ہم اپنے ضمیر کی آواز پر پاکستان اور عظمت ِپاکستان کو نہیں سوچیں گے ہماری حال آج سے بھی بدتر ہوجائے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :