کاش!ہماری سوچ اور شعور کے بند دروازے کھل جائیں

اتوار 6 اکتوبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

دین مصطفےٰ کے شیدائی بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمارے دلوں کے حال جانتا ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے سرورِ کائنات سے فرمایا !کہہ دولوگوں سے کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے وہی عزت اور ذلت دیتا ہے بروز محشر تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہوں گے اور میرے اعمال میرے ساتھ ہوں گے ۔
قرآن کریم کی اس واضع ہدایت اور فرمانِ خدا کو ہرمومن مسلمان جانتا ہے لیکن جانے کیوں ہم دوسروں کی سوچ کے غلام ہیں ۔

کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ رب العزت ہی جس کو چاہتا ہے راہِ حق کیلئے منتخب کرتا ہے اگر ہم تسلیم کرتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی رضا کے بغیر کوئی پتہ نہیں ہِل سکتا تو پھر ہم اپنی قبر کیوں تاریک کر رہے ہیں جب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم میں ہر کسی نے اپنی قبر میں سونا ہے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو کیوں یقین نہیں کرتے کہ دنیا میں جو کوئی جو کچھ کرتا ہے اُس کا کچھ خمیازہ دنیا ہی میں بھرتا ہے سب کچھ جاننے کے باوجود ہم اُن لوگوں کیلئے بولتے ہیں اُن کی شفافی کے گیت گاتے ہیں ،اُن کے حق کیلئے نعرے لگاتے ہیں لیکن اپنا نہیں سوچتے ،جانتے ہیں کہ زیر عتاب لوگ مکافاتِ عمل کا شکار ہیں جو کچھ اُنہوں نے مخلوقِ خدا کیساتھ کیا اُس کی سزا بھگت رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

جن کے دامن دھوکر ہم اُس پانی سے وضوکررہے ہیں ۔بقول سعدیوہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اندر سے کیا ہیں اللہ تعالیٰ اور اُن کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
قومی سیاست میں ہم سیاسی مزدور ہیں ہم میں کچھ تنخواہ دار ہیں اور کچھ پیروکارلیکن بڑی تعداد ہم میں وہ مزدور ہیں جو صرف دوسروں کو دیکھ کر زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اگر ان کو کوئی کہہ دے کہ کتا اُن کا کان لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے بھاگیں گے اپنا کان نہیں دیکھیں گے ہم سیاسی مزدور بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین نے کبھی بھی اپنے وطن اپنی قوم اور دین مصطفےٰ اور مخلوقِ خدا کو نہیں سوچا اگر سوچا ہے تو صرف ذات کو اپنے خاندان کو ،اقرباپروری کے علمبردار سیاسی قائدین کے گیت گاتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ عام جلسوں میں غریبوں کی غربت پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے نعرہ لگاتے ہیں ۔

ووٹ کو عزت دو اور ہم عوام جب ووٹ کو عزت دے کر اللہ کی رضا کے عین مطابق اپنا ووٹ دے کر اپنے علاقے کے صاحب ِکردار کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں تو خودپرست ،شکست سے دوچا ہونے والے دھاندلی کا شور مچاتے ہیں ۔ہمارے ووٹ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں اور ہماری سوچ کو تسلیم نہیں کرتے اپنے مفادات کی دُم پر پاؤں برداشت نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں کہ انتخابات سے قبل عام جلسوں میں اپنے سیاسی مخالف جماعتوں کے کردار وعمل پر وہ کیا کچھ کہتے رہے ہیں ۔

جلسوں میں اپنے مخالفین پر بدکردار ،حرام خوری ،بدزبانی اور کرپشن کا سرِعام الزام لگاتے ہوئے وعدے کرتے ہیں کہ ہم برسرِ اقتدار آکر اُن کو کیفرِکردار تک پہنچائیں گے ۔نجی محفلوں میں ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے لیکن جب عوام کی عدالت میں اپنے کرداروعمل کے حساب میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو پھر اُنہی کو گلے لگاتے ہیں جو کل حرامزادے تھے ۔

ذاتی مفادات کیلئے وہی حرامزادے فرشتے ہوجاتے ہیں اور پھر غریب کی غربت اور مہنگائی کا رونا روتے ہوئے سڑکوں پر چلے آتے ہیں ۔
ہم بحیثیت قوم سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہیں لیکن اپنے د ماغ کو بالائے طاق رکھ کر اُن کی زبان میں اُنہی کی سوچ بولنے لگ جاتے ہیں البتہ عام لوگوں کی نسبت اُن کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے جو درباری ہوتے ہیں جو لفافہ لینے والے ہوتے ہیں یہ لوگ غاصبوں اور قوم کے مسترد کردہ لوگوں کے گیت گاتے ہوئے اپنی آخرت بھول جاتے ہیں خدا کے فیصلوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنی قبر کی تاریک راتوں سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔

ہم سیاسی مزدور قوم اور وطن کے مجرم ہیں اس لیے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ ہم اپنا حساب دینے کیلئے اپنی قبر میں سوئیں گے کسی عمران خان ،کسی زرداری 
،کسی میاں یا کسی مولانا کی قبر میں نہیں سوئیں گے ۔بروزمحشر وہ اپنا حساب دیں گے اور ہم اپنا حساب دیں گے کاش! ہماری سوچ اور شعور کے دروازے کھل جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :