پاکستان ہی ہماری شان اور پہچان ہے

جمعرات 6 فروری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 سیاست اور ذاتی اختلافات ا پنی جگہ لیکن قومی اور مذہبی وقار کو نظر انداز کر کے دینِ اسلام کی آڑ میں قوم اور قومیت کا وقار مجروح کرنا ، عوام کو گمراہ کرنا مذہبی اور قومی جرم ہے،حج کے اخراجات میں ہوش ربا اضافہ عام مسلمان کے لئے پریشانی کا باعث ہے لیکن اس اضافے پر حکمران جماعت کو موردِ الزام ٹھہرانا اور حقائق کو نظر انداز کر کے اپنے مذہبی قداور وقار کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے حج اخراجات میں اضافہ حکومتِ پاکستان نے نہیں کیابلکہ سعودی عرب کی بادشاہت نے حج کو منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے۔


 سعودی حکومت نے نئے ٹیکس،حج ویزہ فیس، ہیلتھ انشورنس فیس اور فضائی کرایا میں اضافہ کیا ہے لیکن علامہ ناصر مدنی نے ذاتی اختلافات یا کسی خاص اشارے پر حقائق کو نظر انداز کر کے حکومتِ وقت پر تنقید کر کے صرف اپنے نمبر سکور کئے ہیں دانش وروں کی نظر میں علامہ مدنی کا یہ اقدام اپنے وقار اور کردار کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے (قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے، ان سے کہا جاتا ہے کہ زمیں میں فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو فقط اصلاح کرنے والے ہیں خبردار یہ ہی لوگ فساد کرنے والے ہیں مگریہ سمجھتے نہیں) مولانا کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اپنا بنگلہ بنی گالہ اور وزراء اپنی گاڑیاں فروخت کر کے حج کے خواہش مندوں کی مدد کریں، مولانا کی اس تقریر کو سوشل میڈیا پر بڑی پزیرائی تو ملی لیکن ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے مولانا کی لاعلمی کا خوب مذاق اڑایا!!
سیاست دان اگر ذاتی مفادات اور اختلافات میں حکمران جماعت کے خلاف حقائق کو بخوبی جانتے ہوئے بھی حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو قوم ان کی سوچ کواہمیت نہیں دیا کرتی ان کی سوچ فکر وخیال کو نظر انداز کر دیا کرتی ہے، لیکن اگر کوئی دینِ مصطفی کا علمبردار غلط بیانی کرے تو افسوس ضرور ہوتا ہے بہتر تو یہ تھا کہ ہر مکتبہ فکر کے علماء اور مشائخ عظام مذہبی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہو کر سعودی عرب حکومت کے اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے لیکن ان کو یہ توفیق نصیب نہیں ہے ذاتی اختلافات میں کسی فرد، واحد عالم دین کا حقائق کے بر عکس حکومت پر تنقیدخو اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اس لئے کہ حج اخراجات میں نہ تو کوئی حکومت اضافہ کرتی ہے اور نہ ہی کمی کر سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

 بد قسمتی سے وطنِ عزیز میں کچھ صاحب ِ اختیار لوگ حکمران جماعت کے قومی کردار کے منفی پہلو کو ہوا دیکر مثبت کردار کو نظر انداز کر دیا کرتے ہیں قوم بخوبی جانتی ہے کہ وطنِ عزیز کی عظمت کے دشمن اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر ہماری قومی یکجہتی کو برباد کرنے کی سر توڑ کوشش میں ہے ہم وطن دوست یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان ہی ہماری شان اور پہچان ہے لیکن کچھ بد بخت نہ تو پاکستان کو سوچتے ہیں اور نہ ہی اپنی قومی شان اور پہچان کو!! ذاتی مفادات کے لئے قومی اور مذہبی دشمن کا ساتھ دیکر بے پرکیاں اڑاتے ہیں اور یہ ہی ہم پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ قومی اتحاد کو نظرانداز کر کے قومی دشمن کی سوچ کا ساتھ دیتے ہیں ،حالانکہ موجودہ حالات میں وطن میں فروغِ امن کے لئے علماء کے قومی اور مذہبی کردار کی اہمیت بڑھ گئی ہے مذہبی فکر وکردار کو جگانے کا وقت ہے کشمیر کی شہہ رگ کٹ چکی ہے ہندوستان میں مسلمانوں پر سرِ عام تشدد ہم روز دیکھتے ہیں ہندوستان کے کروڑوں مسلمان اقلیت قرار دئے جا رہے ہیں۔

کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین مولانا فضل الرحمان کے دھرنے اور مارچ کے پاؤں کے نیچے قومی سطح پر کشمیر بنے گا پاکستان کی آواز دب چکی ہے ایسے حالات میں قومی دشمن بھارت کے خلاف وطنِ عزیز میں بین المسالک ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے قومی سرحدوں کے ساتھ اندرونی دشمن کے خلاف افواجِ پاکستان بیدار ہے فو ج کے شانے پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے قوم کو رہنمائی کی ضرورت ہے اور یہ کردار دینِ مصطفی کے علمبردار بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔

 پاکستان کے علماء کرام کو سیاسی مصلحتوں کو نظرانداز کرنا چائیے اس لئے کہ مذہب میں فرقہ واریت پر نظرِ خاص رکھنے کی ضرورت ہے قیامِ پاکستان کے لئے علماء ومشائخ کے کردار کو زندہ کرنا ہے پاکستان اگر علماء نے بنایا ہے تو اس کی حفاظت بھی علماء کرام ہی کر سکتے ہیں اگر آزادی کے لئے علماء کرام اپنے مذہبی کردار میں روشن تھے تو آج ان کے کردار میں وہ چراغ بجھ کیوں رہے ہیں۔

 حکمران جماعت سے اپنے اختلافات کو نظر انداز کر کے علماء کرام قومی امن وسکوں اور بین المسالک ہم آہنگی م کو فروغ دیں اگر علماء کرام ہمیں بتاتے ہیں کہ دینِ مصطفی امن،برداشت اور بھائی چارے کی پہچان ہے تو ہم اپنی پہچان کیوں کھو رہے ہیں علماء کرام جانتے ہیں کہ قومی دشمن معصوم بے گناہوں کے خو ن کا پیاسا ہے قوم کا سر تو قومیت سے محبت کرنے والوں کی ہتھیلی پر ہے اگر ضرورت ہے تو قیادت اور راہنمائی کی !! اس لئے ذاتیات سے ہٹ کر علماء کرام اپنے مذہبی کردار کی شمع جلائیں دشمن پاکستان کی سازش کو ناکام بنائیں وطنِ عزیز میں پائیدار امن کے قیام کے لئے فکری سطح پر مشالی کردار ادا کریں۔

علامہ ناصر مدنی کا ا حترام اپنی جگہ لیکن ان کا حقائق کے برعکس بیان اور اندازِ بیان لمحہ ء فکریہ ہے علماء ایسے خیالات اور بیانات سے خود کا تماشہ نہ بنائیں اگر ممبرِ رسول کے اعزاز سے سرفراز ہیں تو اس کا احترام کریں مذہبی تقریبات اور مساجد میں لوگ دینِ مصطفی سے آبیاری کے لئے آتے ہیں ان کو فرقوں میں تقسیم کرنادینِ مصطفی کی خدمت نہیں تو ہین ہے اپنی مذہبی شان اور پہچان کے لئے اپنے مذہبی کردار کی شمع جلائے رکھیں گے تو معاشرے میں وہ احترام ملے گا جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے!!! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :