علامہ خادم رضوی۔۔۔ایک منفرد شمع جو بجھ گئی!!!

ہفتہ 21 نومبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

علامہ خادم حسین رضوی دنیا فانی سے کوچ کر گئے، ان کے نظریات اور خیالات ایک منفرد سوچ وعمل کی پہچان تھے، جنہوں 2017ء سے آج تک صرف تین سال میں "یک نکاتی" فکر پروان چڑھا دی.وہ نکتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی، جس کے انداز اظہار سے اختلاف ھو سکتا ھے مگر بنیادی نکتے سے کسی کو اختلاف نہیں تھا۔عقیدت میں علم پروان چڑھے تو کامیابی ضرور ملتی ہے لیکن علم کے دروازے بند کر دئیے جائیں تو نقصانات ہوتے ہیں، علامہ صاحب خود بڑے عالم تھے مگر عقیدت میں ایک نئی جہت کو فروغ دیا جس سے کیا ملا اور کیا کھویا اس کے اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

تاھم علامہ صاحب نے اپنے حامیوں کی تعداد میں ملک بھر میں اضافہ کرکے مذھبی اور سیاسی جماعتوں کو پریشان کر دیا، جس مکتب فکر سے ان کا تعلق تھا اس کی نمائندگی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی، مولانا شاہ احمد نورانی، اور مولانا عبدالستار نیازی اپنی زندگی میں ہی اس مکتب فکر کی نمائندگی سے محروم ہو گئے تھے، جن کا طوطی بولتا تھا، وہ بھی پس منظر میں چلے گئے، کچھ نے خانقاہی نظام میں اصلاحات اور جدت کی بات کی ان میں نمایاں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور پیر نصیر الدین نصیر صاحب کی آواز توانا تھی مگر سیاسی عروج و زوال کی روایتی چکی میں وہ بھی پس گئے، تصوف میں جاہلانہ تصورات والے گلی گلی آگ آئے جس سے توانا آوازیں دب گئیں مگر علامہ خادم حسین رضوی صاحب سے لاکھ اختلاف ھو ایک منفرد شمع جلا کر انہوں نے سر عام رکھ دی۔

(جاری ہے)


ایک  المیہ ھے جو پوری امت مسلمہ، یا مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے کہ وہ تصور اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی پر تحقیق میں نمایاں کام نہیں کر سکے اور نہ ہی تعلیم، تربیت اور جدید تحقیق پر کوئی قدم اٹھا سکے جس کی وجہ سے اجتماعی زوال، عدم برداشت اور انتہا پسندی میں اضافہ ھوا حکومت کی سطح پر بھی کوئی کام نہیں ھوا اور نہ ہی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اپنے فرائض پورے کیے جس کی وجہ سے کئی ملک یا آزادی اظہار کے دعویدار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کے لیے سرگرم رہتے ہیں، جواب میں پھر اسی انداز سے شدت بڑھتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے پہلی مرتبہ اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ناموس رسالت اور اسلاموفوبیا جیسے موضوعات پر عالمی فورم پر بات کی، جس سے کئی ممالک کے ارادوں پر کاری ضرب لگی۔

اس پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جاتا تو کئی ممالک کے منہ بند ھوتے مگر ترجیح ذات تھی اس لیے کچھ نہ ھو سکا۔ابادی کے لحاظ سے پاکستان میں اس مکتب فکر کے لوگ زیادہ ہیں مگر رہنمائی کم ھے۔ان سب لوگوں نے سستی اور کاہلی سے تصوف  کو منجمد اور مادیت  کا ذریعہ بنا دیا، ملک کے کونے کونے میں مفاد پرست دکان سجھائے بیٹھے ہیں، افسوس یہ نہیں کہ دکانیں کھل گئیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ دکانیں چل رہی ہیں اور اور گنجائش پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

ادارے اور قوانین مضبوط ھوں اور عمل داری منظم ہو تو ان دکانوں کو بند کیا جا سکتا ہے یا علم و تحقیق جامع، مستند اور معتبر ھونا چاہیے بس اسی دانش مندی کو اہل اسلام نے بھلا دیا ، محل تو تعمیر کیے قومیں تعمیر نہیں کیں، خادم حسین رضوی تو بے چارا "خادم"تھا ایک شمع جلا گیا کوئی اس میں ایندھن بھرے یا بجھا دے، ان کی وفات پر کچھ سازشی تھیوری بھی چلائی جا رہی ہے یہ بھی مسلمانوں کا المیہ ہے کہ سازشی تھیوری چلانے میں ھم ہروال دستہ بن جاتے ہیں، خوب تحقیق کر لیا کرو، کے زریں اصول سے ھم نے منہ موڑ لیا ھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور تکریم کی حفاظت علم و تحقیق اور کردار وعمل سے کی جائے تو کوئی توہین کی جرات نہیں کر سکے گا، خادم حسین رضوی اپنے حصے کا کام کر گئے، اختلاف بھی ھو سکتا ھے مگر انفرادیت میں یہ زندہ اور چمکتے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :