جب فیصلے کا دن آئے تو ہم سب زندہ ہوں'

بدھ 3 فروری 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

جب کسی کام اور مقصد خاس کے حصول کے لئے ارادہ کیا جائے تو قسمت بھی حر کت میں آکر اس پر مہربان ہو جاتی ہے، عمل ارادے اور قوت ِ فیصلہ کے لئے بہتر ہے کہ ہم خود کو بدلیں۔اپنی زندگی کے ہر عمل پرغور کریں زندہ رہنے کے لئے سانس لینے کا عمل ہر لمحہ جاری رہتا ہے سانس رکی اور زندگی کا عمل ختم، اسی طرح کوئی بھی کا م اس وقت تک بہتر نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم اس کی مشق نہ کریں کوئی شے انسانی ارادے کے آگے نہیں ٹھہر سکتی زندگی اس وقت بدل جاتی ہے جب ہم اسے بدلنے کا ارادہ کر لیتے ہیں اس لئے اگر ہم اپنی زندگی میں اپنے ،اپنوں اور دیس کےلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہو گا، ارادہ کر کے اس پر عمل کے لئے اپنے آپ اور انا کے خول سے نکلنا ہو گا صرف کسی کام یا عمل کا خواہش کر کے گھر میں بیٹھ جانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دیس میں آج کل کے سیاستدانوں کے پاس ضمیر ہے اور نہ مافی الضمیر، سیاست خاندانی ورثہ ہو کر رہ گئی ہے باپ کے بعد سیاست کے جراثیم بیٹے کے وجود میں خود بخود منتقل ہو جاتے ہیں اور باپ اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرتا ہے، بتوں اور چاند سورج کی پوجا گناہ ہے مگر ہاں چڑھتے سورج کی پوجا اور بات ہے۔

(جاری ہے)

اخلاق احمد خان لکھتے ہیں کی ایک سیاسی لیڈر کے گھر میں چاقو بھی تھا اور لاٹھی بھی مگر جو بھی اس سے لڑنے آتا وہ اسے کرسی اٹھا کر مار دیتا، معلوم ہوا کی اس کا باپ قومی اسملی کا ممبر ہے۔
  ہم اہل ِ وطن آج کل یہ ہی تماشہ دیکھ رہے ہیں ، گر گٹ بھی اس قدر جلدی رنگ نہیں بدلتا جیسے ہمارے دیس کے سیاست دان بدل رہے ہیں اپوزیشن تو اپوزیشن ہے لیکن اتحادی بھی مالی بھوک لگتے ہی حکومت کو آنکھیں دکھانا لگتے ہیں ۔

یہ فصلی سیاسی بٹیرے ہیں ان کا قوم اور قومیت یا عوام سے کوئی سرو کار نہیں ! یہ اگر ہم عوام کے مفادات کے لئے روتے ہیں تو کسی کوغلظ فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ، وہ اگر روتے ہیں تومگر مچھ کے آنسو روتے ہیں صرف ذاتی مفادات کے لئے!! اللہ تعالیٰ نے اگر ہمیںپیدا کیا ہے تو ہمارے سر میں دماغ بھی اس لئے رکھا ہے کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ تمہارا کان کتا لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے اپنا کان دیکھیں !    
ہم پاکستان کے عوام تحریک ِ انصاف کی حکمرانی سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ،ق، اور ماشل کے دور میں ان کے اتحادیوں کی حکمرانی  میں جو ہم نے کھایا اور جو انہوں نے کھایا ہم کیا دنیا جانتی ہے چالیس سال تک دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کو ہم دیکھ چکے ہیں ، ہم اگر خود کو باشعور قوم کہتے ہیں تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم نے ووٹ کس کو دیا ہے اگر ہم پاکستانی عوام نے اپوزیشن کے خود پرستوں کو ووٹ کی طاقت سے مسترد کیا ہے اور تحریک ِ انصاف کو حکمرانی کا حق دیا ہے تو اسے حکمرانی کا حق بھی ملنا چاہیے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ کیا ہمارا فیصلہ درست تھا یا غلط یہ ہم نے کسی دوسرے کے دماغ سے نہیں اپنے دماغ سے سوچنا ہے۔

کبھی اس غلط فہمی میں نہیں رہنا کہ تحریک انصاف کی حکمرانی میں جن سابق حکمرانوں کے خلاف مقدمات درج ہیں ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی اس لئے کہ ہم اپنے پاکستا ن کی عدالتوں میں انصاف دیکھ رہے ہیں ۔ جس کو یہ ہی عدالت کہتی ہے کہ تم صادق اور امین نہیں اسی کو ایک اسٹام پیپر پر جیل سے رہا کر کے عیاش زندگی گزارنے کے لئے ان کے آشناﺅں کے پاس بھیج دیتی ہے اور ایک روٹی چور کو اپنی ضمانت کے لئے کوئی ضمانتی ہیں ملتا، وہ سزا سے پہلے حوالات میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، ہمارے دیس میں مجرم کو لٹکایا نہیں جاتا اس کے کیس کو لٹکا دیا جاتا ہے اور یہ کوئی دور ِ حاضر کا ظلم نہیں ہماری تاریخ ہے!
حیدرآباد جیل کے تاریخی ہال میں ٹربیونل نے جسٹس اسلم ریاض حسین کی صدارت میں 1951 میں راولپنڈی سازش کیس کی سماعت کی گئی تھی۔

جج صاحبان اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھے تو اس موقع پر کئی دلچسپ واقعات ہوئے، ججوں کے بیٹھتے ہی ولی خان اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ' آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر مایوسی ہوئی، ہم سمجھتے تھے کہ جج ہمیں انصاف دیں گے لیکن حکمرانوں نے تو آپ کو ہماری طرح جیل بھیج دیا، اس مشکل میں ہمیں آپ کے ساتھ ہمدردی ہے۔'ولی خان کے اس بیان سے عدالت میں قہقہے بلند ہو گئے۔

ان کی تقریر سن کر حبیب جالب کو بھی آمد ہوئی اور انھوں نے فی البدیہہ ایک شعر کہا ۔۔۔۔ یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
اسی قید کے دوران حبیب جالب نے ایک اور تاریخی قطعہ بھی کہا جو ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں ہے
کون کہتا ہے، اسیروں کی رہائی ہوگی  یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے  ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی
ٹربیونل کی سماعت نہایت سست رفتاری کے ساتھ ہوئی۔

اسی طرح ایک سال بیت گیا۔ ٹربیونل کے قیام کی پہلی سالگرہ کے دن بھی ولی خان کے خطاب سے دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی۔ جج صاحبان جیسے ہی عدالت میں آ کر بیٹھے، ولی خان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور انھوں نے کہا 'یہ تو سیدھا سیدھا حساب کا کھیل ہے'۔ان کے اس جملے پر لوگ، خاص طور پر جج صاحبان چونکے اور سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو ولی خان بولے 'ایک سال میں صرف پانچ گواہ ہی بھگتائے جا سکے ہیں۔

جس رفتار سے یہ مقدمہ چل رہا ہے، اس میں دو تین سو سال تو لگ ہی جائیں گے کیونکہ حکومت کے گواہوں کی تعداد 500 ہے، 500 گواہ ہماری طرف سے بھی آئیں گے۔ 40،30 سال بحث پر لگ جائیں گے۔ آپ ایسا کریں ، بھٹو سے کہیں کہ کہیں سے آب حیات لاکر خود بھی پیے، آپ (ججوں) کو بھی پلائے اور ہمیں بھی تاکہ جب فیصلے کا دن آئے تو ہم سب زندہ ہوں'۔ان کی اس بات پر عدالت میں قہقہے بکھر گئے۔!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :