اردو ہمیشہ بلند اقبال اور غالب رہے

پیر 15 فروری 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اردو ادب دور ِ حاضر میں بھی دنیائے اردو کا حسن ہے گزرے ہوئے کل میں اگر اردو ادب کی فضا عاشقان ِ اردو کے دم سے مہک رہی تھی تو آج بھی ویسے ہی مہک رہی ہے ، قلم قافلہ کے اشاعتی سلسلے میں گزشتہ چالیس سال سے اردو ادب کے پرستاروں میں اگر جھلک رہا ہوں تو یہ میری اردو ادب سے محبت ہے اور میری اس محبت کے گلشن کو اردو ادب کے قدر دان اپنی محبتوں اور حسن ِ کلام سے مہکائے ہوئے ہیں۔

مجھے اردو ادب نے سبحان الدین سے پہلے گل اور پھر اگر گل بخشالوی بنا دیا ہے تو یہ مجھ پر سخنوران جہاں اور قلم دوستوں کا احسان ِعظیم ہے اگر میرے صحافت کے قلم میں تاریخ کے پروفیسر عزیز احمد چوہدری جھلک رہے ہیں تو میری شاعری میں لکھنو کے ا نیس لکھنوی ، انبالہ کے سرور انبالوی ، نیو یارک کے مامون ایمن اور ایبٹ آباد کے سلطان سکون مہک رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سخنوران ِ جہاں اردو ادب پر اپنی محبت نچھاور کر رہے ہیں ، اردو ادب کا گزرا ہوا کل اگر خوبصورت تھا توآج ہم اسی دبستان ِ اردو کے مہکتے پھول ہیں
 ادب دوستی ہے ادب کی بہاریں
زبانوں میں اپنی زباں کو نکھاریاں
قلم قافلہ میں محبت قلم سے
چلو آﺅ اردو کی زلفیں سنواریں
 کسی نے اردو ادب کے تاجداروں کی تاجدار ی پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے یہ تبصرہ میں نے سنا ہے کہتے ہیں!
اردو ادب پر غالب ہمیشہ غالب رہے اقبال ہمیشہ سر بلند رہے اور فیض کا فیض جاری رہا،کوئی ندی ہے تو کوئی ندیا اور کوئی دریا اور کوئی سمندر، اردو میں میر ہی نہیں امیر ترین لوگ بھی ہیں اردو پر کسی قسم کا داغ نہیں ہاں داغ دھلوی ضرور ہیں جہاں وہ ریاض کرتے کرتے مومن بنے اور ان کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ  دہلی لکھنو اور دکن باقاعدہ نہ صرف دبستان بن گئے بلکہ دبستان ِ اردو بن گئے یہاں ایک سے ایک ولی بھی ہیں جو نہ صرف اردو ادب سے محبت میں سرشار رہتے ہیں بلکہ اس پر جا نثار بھی رہتے ہیں اس لئے کسی کی حیثیت مجروح نہ کیجئے شبلی کو شبلی ہی رہنے دیجئے جنید کو شبلی نہ بنائیں اکبر اگر آلہ آباد میں بے نظیر ہیں تو اکبر آباد میں اپنے نظیر بھی کچھ کم نہیں ، تنقید سے کسی کو فراغ نہیں بغیر تنقید کے نہ تو کوئی فراغ بن سکتا ہے اور نہ سرفراز و احمد فراز ، اردو ادب ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا نہ صرف مشکور رہا بلکہ وہ شاکر بھی رہا اس نے شاکر ہی نہیں پروین شاکر جیسی خوشبو بھی دی ہے اس نے مسدس حالی بھی دیا ہے اور ا س نے نجانے کتنے سید بھی دیئے جو نہ صرف سلمان ہیں بلکہ ان کے پاس تخت ِ سلمانی بھی ہے جس پر ایک دو ہی نہیںبلکہ سر سید بھی بیٹھے ہیں یہاں نہ صرف رشید ہیں بلکہ مشتاق جیسے یوسفی بھی ہیں پطرس جیسے طنز و مزاح کے بخاری بھی ہیں یہاں مختلف رنگ ہی نہیں نارنگ بھی ہیں بلکہ شمس الرحمان جیسے فاروقی بھی ہیں یہاں عبدالماجد جیسے صاحب ِ طرز ادیبوں کا ایک قریہ آباد ہے یہاں ایک سے ایک آزاد ہیں اور ایک سے ایک اعلیٰ شخصیات ہیں ابوالعالیٰ اور ا بوالکلام بھی ہیں ۔


خدا اردو کی اس فضا کو مزید وسیع کردے تاکہ اس کا فیض مسلسل جاری رہے اور ارود ہمیشہ بلند اقبال اور غالب رہے ۔۔ آمین !!
زبانوں میں اردو ہی واحد زباں ہے
جو حسن زباں ہے، جو حسن ِ بیاں ہے
مرے دل کی دھڑکن ،خیالوں کی دلہن
جبیں فکرو فن کی، حسیں کہکشاں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :