جنسی درندے اور انسانی حقوق کے علمبردار

جمعرات 13 فروری 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرار داد پیش کی گئی ۔پہلی بار محسوس ہوا کہ غریب کے بچوں کو تحفظ ملے گا اور زینب کے والدین اور اس جیسے کئی والدین کو حقیقی انصاف ملے گا جن کے بچوں کے ساتھ یہ درندگی ہو چکی ہے ۔ لیکن اس بل کے پیش ہوتے ہی انسانی حقوق کے علمبردار ایسے باہر نکلے جیسے برسات کے بعد برساتی مینڈک باہر نکل کر پھدکنا شروع کر دیتے ہیں ۔

یہ بل بھی باران رحمت کا پہلا قطرہ تھا جس سے مستقبل میں لاکھوں بچے درندگی سے محفوظ ہو سکتے تھے ،لیکن یہ بل بھی موجودہ حکومت نے پیش کیااور اس پر اعتراض بھی حکومتی وزیروں نے ہی اٹھا دیا ۔
جو دردندے ننھی کلیوں کو زیادتی کے بعد مسل ڈالتے ہیں ان کیلئے ہمارے وزراء نے انسانی حقوق اور ہمدردیوں کے دلائل پیش کیے اور سرعام پھانسی کو غیر انسانی اقدام قرار دیتے رہے ۔

(جاری ہے)

یہ ہمدردی شاید اس لیے تھی کیونکہ آج تک ایسی درندگی کسی وزیر مشیر کے بچے ساتھ نہیں ہوئی اور اللہ نہ کرے کبھی ہو ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی یہ درندگی ہوئی کسی غریب کی عزت ہی تار تار ہوئی ۔باقی کسر انصاف لینے کیلئے عدالتوں میں دھکے کھا کر نکل جاتی ہے اور بچی کچی عزت کا جنازہ وکلاء کی بحث سے نکل جاتا ہے ۔ مگر وہ وزیر جن کو عوام نے ووٹ دے کر ایوان میں اس لیے بھیجا کہ وہ انکے حقوق کے عملبردار بنیں گے وہ بجائے اس کے درندوں کیلئے اپنی ہمدردیاں دکھا کر مظلوموں اور متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں ۔

 یہ سزائیں تو قرآن میں بھی درج ہیں قتل کا بدلہ قتل تو قرآن کا بھی فیصلہ ہے ،زانی کیلئے بھی سزا کا حکم دیا گیا ہے مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں شریعت نافذ نہیں مگر ملکی قانون تو موجود ہے اگر اس میں ترمیم یا تبدیلی کر کے مجرموں کو ڈرایا جا رہا ہے تو اس میں انسانیت کہاں سے آگئی ۔
 پڑوسی ملک سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سیکس اوفینڈر رجسٹر نامی ایک فہرست بنائی جاتی ہے جس میں صرف جنسی جرائم میں ملوث افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں ، لندن میں وائلنٹ اینڈ سیکس افینڈر رجسٹر ہے جس میں ہر اس درندے کا نام شامل کیا جاتا ہے جس نے اس قسم کے کسی بھی جرم کا ارتکاب کیا ہو اور اس میں سزا پائی ہو ۔

کسی شخص کو سیکس سے متعلقہ جرم میں چھ ماہ یا اس سے زیادہ کی سزا ہو جائے تو اگلے دس برس کیلئے اس کا نام رجسٹر میں درج کر لیا جاتا ہے اور اگر سزا تیس ماہ سے زیادہ ہو تو ایسے مجرم کا نام غیر معینہ مدت کیلئے رجسٹر میں درج رہتا ہے ۔ یعنی سزا پانے کے بعد بھی مجرم کو سرخ ریڈار پر رکھا جاتا ہے ان کو کوئی انسانی ہمدردی یاد نہیں آتی اور وہ ان کو کسی قسم کی رعایت نہیں دیتے مگر ہمارے ایوانوں میں بیٹھے وزیر ہی مجرموں کیلئے ہمدردیوں کے بھاشن دینا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔

آپ کو بیان دیتے وقت اور ٹویٹ کرتے وقت متاثرہ افراد کے جذبات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جن کے ساتھ یہ انہونی ہو چکی آپ کا بھونڈا سا موقف سن کر ان پر کیا بیتے گی ،ان کے جذبات کو کتنی ٹھیس پہنچے گی آپ کی ایسی گفتگو سن کر اور کیا وہ دوبارہ آپ پر بھروسہ کر کے ووٹ دینگے ؟
 ویسے بھی حکومت کارکردگی کے حوالے سے جو گُل کھلا رہی ہے وہ تو سب کے سامنے ہی ہیں تو ایسے میں کوئی کام غلطی سے اچھا ہو رہا ہے تو اس پر بھی وزیراء اپنی ہی حکومت پر اعتماد نہیں کر رہے تو اپوزیشن اور عوام کیا کرے گی ،ہر کسی کی اپنی الگ کی منطق ہے وزیر اپنی وزارتوں میں تو کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرتے اور خود کو ہرفن مولا سمجھ کر دوسروں کے کام میں ٹانگ پھنسادیتے ہیں کہ ہم سے کچھ اچھا نہیں ہو رہا تو تم کیوں اچھا کر رہے ہو ۔

یہ ایسا معاملہ ہے اس میں ذاتیات سے نکل کر قوم کے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے اور قوم کے بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اس بل کی حمایت کریں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :