منفی سوچ کا رجحان

جمعرات 26 مارچ 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ، ایک کعبے کی حفاظت اور دوسرا قرآن پاک کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمے لی ۔کعبے کا طواف بند ہونا ہر مسلمان کیلئے بڑی تکلیف کا باعث بنا لیکن میرا سوال ہے کہ جس کی جگہ کی حفاظت اللہ نے لی وہ بند ہو جائے تو کیا اس میں اللہ کی کوئی حکمت نہیں ہو سکتی ؟ کیا اس کی مرضی کے بغیر کوئی شخص اتنی طاقت رکھ سکتا ہے کہ اس کے گھر کو عبادت کیلئے بند کر دے جبکہ وہ اپنے گھر کا نگہبان خود ہو ؟ ایک وباء جس نے ساری دنیا کو بلا تفریق متاثر کیا ، کیا ہمارا یہ ایمان نہیں کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے؟
اس وباء کے سے بچاوٴ کیلئے ساری دنیا کی تمام عبادت گاہیں بند کی گئیں اس پر کچھ لوگوں نے بڑی منفی سوچ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا اور حالات اتنے سنگین ہونے پر بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر ایک گروہ ایسا ہے جو ہمیشہ فتنہ پرستی کو فروغ دیتا نظر آتا ہے اس کا کوئی نام اور پہچان نہیں ،یہ منفی سوچ کا حامل ایک جتھہ ہے جو ہر اس بات کو فروغ دیتا ہے جو ملک ، مہذب ، افواج اور امن کے خلاف جاتی ہو ۔ ملک میں وائرس آیا تو ان کی سوچ کا میعار اور ارادے دیکھیں کہ یہ لکھتے ہیں ایران سے آنے والے وائرس سے ثابت ہوا کہ کسی دربار پر کوئی شفا نہیں، پہلی بات یہ کہ وائرس تو ساری دنیا سے ہوتا ہوا ہمارے ہاں آیا اور اس کی ابتداء چائنہ سے ہوئی ۔

اور چائنہ میں بھی کسی دربار سے نہیں پھیلا بلکہ ایک مارکیٹ جہاں حرام جانوروں کا گوشت بیچا جاتا تھا وہاں سے اس وائرس کی وباء پھیلی اس میں کسی دربار کا کوئی عمل دخل نہیں ،دوسرا یہ کہ ایران میں کربلا کی اور آلِ رسول کی یادویں ہیں انکے مزرات ہیں انکی زیارتیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ چند فتنہ پرست افراد ان کے مزاروں کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں یا آلِ رسول کی بے ادبی کر رہے ہیں ؟جب عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وباء قرار دے دیا تو پھر اسے کسی ایک مقام سے جوڑ کر مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کیوں کی جا رہی ہے ؟ پھر یہ فتنہ انگیز افراد لکھ رہے ہیں کہ کوئی داتا نہیں ، کوئی مشکل کشا نہیں ، کوئی غوث نہیں اور کوئی پیر فقیر نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ نظام کائنات اللہ کے حکم سے چل رہا ہے وہی رزق دینے والا ہے وہی مشکلوں سے نکالنے والا ہے اور وہی سب کا مدد گار ہے ۔

مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس نے اپنے ان خاص بندوں کاجنہوں نے اپنی ساری زندگی اسی کے نام پر وقف کر دی ، آج اللہ نے اُن کا نام مختلف القاب سے زندہ رکھا ہے کسی کو مشکل کشا کا ، کسی کو داتا اور کسی کو غوث کا لقب عطا ء کیا بے شک اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہلتا تو اتنے عظیم القاب کوئی کسی کو کیسے دے سکتا ہے ۔ مگر پھر سوال وہی ہے کہ ایک عالمی وباء کو ان مقدس ہستیوں سے جوڑ کر ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا مقصد اور ارادے کیا ہیں ؟ اتنی سنگین صورتحال میں لوگوں کو توبہ استغفار کی تلقین کرنے کی بجائے ان کو نئی اور بے مقصد بحث میں ڈال کر نفرتوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ، ایسے شر پسند عناصر کی حوصلہ شکنی اور مذمت ہو نی چاہئے ۔

وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے ملاقات کی اور اتنے سنگین حالات میں بھی عوام کو بڑا رلیف دیا اب چاہئے تو یہ تھا کہ سنیئر صحافی وزیر اعظم پیکج پر داد دیتے اور وائرس کی روک تھام کے متعلق اپنی رائے اور تجربات سامنے رکھتے کہ اس مشکل گھڑی میں حکومت ہمارے مشاہدوں اور تجربات سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کی اس وائرس سے جان چھڑائے ، مگر ایسانہیں ہوا کوئی وزیراعظم کا گریبان پکڑنے کی بھڑکیں مارتا رہا اور کوئی اپنے اشتہارات کا رونا روتا رہا ،کسی نے بھی عوا م کی ترجمانی ٹھیک سے نہیں کی ۔

سنیئر صحافیوں کے سوالات ، انداز گفتگواور الفاظ کے چناوٴ سے وہی منفی سوچ ٹپک رہی تھی جو اوپر بیان کی گئی ، باقی ساری دنیا تو کوروناسے لڑ رہی ہے مگر ہمارا مقابلہ کورونا کے ساتھ اَن پڑھ و پڑھے لکھے جاہل اور منفی سوچ سے بھی ہو رہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :