ضلعی عدلیہ : جسٹس منصور علی شاہ کی راہ تک رہی ہے
پیر 8 مئی 2017
(جاری ہے)
قارئین !مجھے پچھلے دنوں ضلعی عدلیہ میں دو ایسے کیسز کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملااور جنہیں دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ضلعی عدالتوں میں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو رہے ہیں ۔ کرپشن کا ناسور سر بازار گرم ہے جس میں ججوں کے ریڈرز کے ساتھ تما م عدالتی عملہ پورے زور و شور کے ساتھ اپنی جیبیں گرم رکھنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ،غریب سائل کی پوری زندگی عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر گذر جاتی ہے، لیکن آنکھوں میں سجا انصاف اپنے ساتھ لئے ہی منوں مٹی تلے دفن ہو جا تا ہے ۔
میرے ایک قریبی دوست کے دفتر میں ان کے ایک ملازم نے فراڈ کیا، مقدمہ درج ہوا تو ملاز م روپوش ہو گیا۔ اس دوران انوسٹی گیشن افسر نے تفتیش مکمل کے تو ملازم گنہگار ثابت ہوا ۔ اس کے چند روز بعد اس ملازم نے سیشن عدالت لاہور سے اپنی عبوری ضمانت کرائی اور جج نے اسے پھر شامل تفتیش ہونے کے احکامات صادر کئے ۔ جج صاحب کے شامل تفتیش ہونے کے حکم کو ہوا میں اڑاتے ہوئے وہ ملازم دی گئی تاریخ کو دوبارہ عدالت میں پیش ہوا اور اس کی ضمانت میں مزید تین روز کی توسیع کر دی گئی ۔ تفتیشی افسر کی اس کے خلاف رپورٹ کے باوجود بھی جج صاحب ملزم کو تاریخ پر تاریخ دیتے رہے، اور یوں اس کی ضمانت میں ایک مہینہ تک توسیع ہوتی رہی ۔ بالآخر ایک تاریخ پر جب ملزم عدالت میں پیش نہ ہوا تو عدالت نے اس کی ضمانت کینسل کرنے کے احکامات صادر فر مائے ،لیکن پھر اسی ہی روزدوپہر میں ملزم کے پیش ہونے عبوری ضمانت پھر لے لی گئی اور جس میں پھر ایک دفعہ توسیع ہوتی جا ہی ہے ۔ اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح چور ، ڈاکو اور قاتل عدالتی سست روی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کے معزز اور شریف شہریوں کو اذیت دیتے ہیں اور عدالتوں کی کاروائی کی وجہ سے شریف شہری خود اپنے آپ کو مجرم سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور چور اچکے ، فراڈئیے اسے بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔
ایک دوسرا واقعہ میری ایک غریب اور بیوہ عزیز ہ کے ساتھ پیش آیا ،جب گوجرانوالہ میں ان کے گھر پر ایک خاتون کرایہ دار نے قبضہ کر لیاجسے مقامی سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ چار سال پہلے انہوں نے متعلقہ تھانے میں درخواست دی لیکن کوئی فریاد رسی نہ ہو سکی اورمجبوراََ ضلعی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ۔ لیکن ملکیت کے تما م تر شواہد ہونے کے باوجود وہ پچھلے چار سالوں سے حق پر ہونے کے باوجود مصدقہ فراڈیوں کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوئی ہیں ۔آپ اندازہ لگائیں کہ اس غریب اور بیوہ خاتون کا کیا حال ہوتا ہو گا جب وہ اپنے ہی گھر سے در بدر کردی گئی اور فراڈئیے خوب مزے لے رہے ہیں۔
قارئین کرام ! ان دونوں واقعات کا تو میں ذاتی گواہ ہوں اور جس کے نتیجے میں یہ لوگ کس اذیت سے گذر رہے ہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں ،لیکن ماتحت عدالتوں میں روزانہ ایسے بیسیوں واقعات سننے کو ملتے ہیں جب لوگوں کو فوری انصاف فراہم نہیں ہو تا۔ لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر کچھ ہی دیر میں قبضہ کرنے، اور محنت سے کمائی جانے والی رقم کو ڈکارنے والے ، انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی سستی کی وجہ سے اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف جسٹس منصور علی شاہ اپنی تما م تر تو جہ ضلعی عدلیہ اور ماتحت عدالتوں پر مرکوز کرتے ہوئے ،ہنگامی بنیادوں پر یہاں کرپٹ اہلکاروں اور مافیا ز کے خلاف ایکشن لیں ،اور کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت ایک مخصوص وقت میں لوگوں کو بر وقت انصاف فراہم کیا جائے ۔ امید کی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے جسٹس منصور علی شاہ ماڈل کے حقیقی ثمرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.