وفاقی و صوبائی وزراء و ذمہ دارانِ تعلیم کے نام

جمعہ 25 اکتوبر 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

پاکستان تحریک انصاف نے جب تبدیلی کے نعرے کا آغاز کیا اور الیکشن سے پہلے اور بعد بھی جس کا خوب شور مچایا گیا تو اس میں سر فہرست تعلیم اور صحت کے میدان میں حقیقی اور انقلابی تبدیلی لانا تھی ۔ لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے کئی مہینے گذر جانے بعد بھی ان دونوں شعبوں کی صورتحال مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے ۔

بد قسمتی کے ساتھ تعلیم اور صحت کے وزرا ء سمیت ان محکموں کے تمام ذمہ داران بھی بظاہر تو بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ صرف ”نعروں “ تک ہی محدود ہیں ۔ پچھلے دور حکومت میں تو پھر کسی نہ کسی صورت میں ان دونوں محکموں کی بہتری اور انہیں مزید فعال بنا نے کے لئے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا لیکن تحریک انصاف جو بالخصوص ان دونوں محکموں میں تبدیلی لانے کی دعویدار تھی نے اپنے دور حکومت میں ان محکموں کے بجٹ میں کٹوتی کر نا شروع کر دی ۔

(جاری ہے)

جو محکمے پہلے ہی مصنوعی سانسوں پر چل رہے تھے ان کا گلہ گھوٹنے کے لئے مزید ایسے اقدامات کئے گئے جن کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ۔
 مزید ظلم یہ ہوا کہ ان دونوں محکموں میں ایسے کرپٹ اور حرام خور قسم کے افسران کو تعینات کیا گیا جن کا نہ تو صحت سے تعلق ہے اور نہ تعلیم سے کوئی لینا دینا۔ ان کے بچے جب بیمار ہوتے ہیں تو حرام خوری کی کمائی سے بیرون ملک سے یہ ان کا علاج کروالیتے ہیں اور بچے پہلے ہی کسی مغربی سکول کے بڑے کیمپس میں زیر تعلیم ہوتے ہیں ۔

ایسے لوگوں سے پاکستانی عوام بالخصوص غریب عوام کے لئے کوئی خیر اور بہتری کی توقع کر نا ،ا س سے وقت کے ضیاع کے علاوہ مزید کچھ حاصل نہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ تبدیلی سرکار کے دور میں جہاں ان محکموں میں انقلابی مثبت تبدیلی کی بات کی جاتی تھی وہاں تبدیلی تو دور کی بات مزید تباہی و بر بادی ان کے مقدر میں آئی ہے ۔
قارئین ! اگلے دنوں میرا پوسٹ گریجویٹ کالج شیخوپورہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں کے درویش صفت پرنسپل حافظ ثنا ء اللہ ، پروفیسر خرم ورک اور پروفیسر سعید اکرم نے کالج میں زیر تعلیم پانچ ہزار طالبعلموں کی اخلاقی تربیت اور انہیں امید و یقین کی دولت سے بہرہ ور کر نے کے لئے پاکستان کے مایہ ناز موٹیویشنل اسپیکر جناب ملک خالد یعقوب کے لیکچر کا اہتمام کر رکھا تھا۔

میں یہاں اپنے قارئین کے علم میں اضافے کے لئے یہ عرض کردوں کہ 1985میں خالد یعقوب ایک ہزار روپے کی تنخواہ پر کسی ادارے میں ملازم تھے لیکن اب ایک بڑے کاروباری ٹائیکون کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں سے مایوسی او ر نا امیدی کے زہر کو نکالنے اور یقین و امید کا مسافر بنا نے کے لئے فی سبیل اللہ ملک کے کونے کونے میں جاکر لیکچر دیتے ہیں اور ان کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو کے ذریعے مجھ جیسے گنہگار کو بھی اپنے رب کے قریب کر دیتے ہیں اوریوں وہ بندہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کر نے والے رب کی آغوش میں چلا جا تا ہے ، جہاں پھر سکون ہوتا ہے ، امید ہوتی ہے اور انسان یقین کی دولت سے مالا مال ہو جا تاہے ۔


ایسے ہی ایک خوبصورت لیکچر کا اہتمام اس کالج میں بھی تھا جہاں میں اورسینئیر صحافی اعظم ملک بھی مدعو تھے ۔ کالج انتظامیہ نے اپنی مدد آپ کے تحت کالج میں یونیورسٹی جیسی سہولیات پیدا کی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے یہ کالج کم اور یونیورسٹی زیادہ محسوس ہو رہی تھی ۔ ایف۔اے سال اول سے لیکر بی۔اے اور تمام شعبوں میں بی۔ایس۔سی سمیت ماسٹرز لیول تک کے پروگرامات بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جاری ہیں اور طلبا و طالبات کا کالج کے اساتذہ اور بہترین اور سستی تعلیم کو دیکھ کر مزید رحجان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں ا ضافے کے پیش نظر کالج میں سیکنڈ شفٹ میں بھی کلاسز کا آغاز کر دیا گیا جس کے لئے پرنسپل حافظ ثنا ء اللہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے محکمہ تعلیم نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے ۔

لیکن طالبعلموں کو بہترین تعلیمی سہولیات پہنچانے کے لئے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج شیخوپورہ میں جو پورے شیخوپورہ اور گردو نواح کے علاقوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہا ہے میں کمروں ، لیباٹری رومزسمیت اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے ۔ یہ بھی ایک المیے سے کم نہیں کہ لاکھوں کی آبادی والے شیخوپورہ شہر میں ابھی تک کسی بھی سیاسی رہنما کو یہ زحمت گوارہ نہ ہو سکی کہ وہ کم ازکم یہاں ایک سر کاری یو نیورسٹی کا آغاز ہی کر وادیتے ۔

یونیورسٹی کی کمی کو یہ کالج بخوبی پورا کر رہا ہے اور جس کے لئے یہ اس کے سر براہ و منتظمین تحسین کے قابل ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تبدیلی سر کار صرف تعلیمی میدان میں تبدیلی کے نعرے کو واقعی حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کے نعرے کو عملی جامع پہناتے ہوئے گورنمٹ پوسٹ گریجویٹ کالج شیخوپورہ میں زیر تعلیم غریب لیکن حصول تعلیم کے لئے دیوانوں کی طرح بے قرار غریب طالبعلموں کی ضروریات کو پورا کر نا کے لئے کالج کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنا نے میں سنجید ہ ہو جائے اور اس کے لئے وفاقی و صوبائی وزیر تعلیم اور ذمہ داران محکمہ تعلیم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ چھوٹے شہروں کے چھوٹے لیکن بڑے دل رکھنے والے غریب طالبعلموں کی تعلیمی ضروریات پورا کر نے کے لئے آج سے ہی کام کا آغاز کردیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :