نت نئی کہانی

جمعرات 19 دسمبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

ہر کہانی کا پس منظر اور پیش منظر ہوتا ہے ۔ کہانی کسی انسان کی ہو یا جانور کی اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہوتا ہے اور ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہوتا ہے ۔کائنات میں لاکھوں کہانیاں ہیں ،کئی سینہ بہ سینہ حافظوں میں محفوظ تو کئی تحریری شکل میں کاغذوں پر مرقوم ہوتی ہیں،کئی خون جگر سے لکھی جاتی ہیں اوردلوں پر ثبت ہوتی ہیں ، کئی خونِ دل سے لکھی جاتی ہیں اور دماغوں پر پرنٹ ہوتی ہیں ۔

کہانی کا سب سے بڑا وصف یہ ہوتاہے کہ کوئی کہانی بے کار نہیں ہوتی ۔ کہانیوں کا سلسلہ تخلیقِ آدم سے انجامِ آدمیت تک محیط ہے ۔داستان گوئی سے قطع نظر ہمارے ماحول اورمعاشرے میں حقیقی کہانیا ں جنم لے رہی ہیں ،جنھیں واقعات ، سانحات ،خبریں یا بریکنگ نیوز کا نام دیا جاتا ہے ۔کیا زمانہ تھا کہ دلوں ، ذہنوں اور کتابوں میں ساری کہانیاں محفوظ ہوا کرتی تھیں ۔

(جاری ہے)

زمانے نے کروٹ لی ، تغیر برپا ہوا ،کتاب خواں جاتے رہے ، صاحبِ کتاب چل بسے ۔ خال خال کتب خواں موجود ہیں ، کچھ لکھنے والے بھی طبع آزمائی و خامہ فرسائی میں مشغولِ کار ہیں ،مگر خوار ہیں ، بے روزگار ہیں ،بر سرِبیگار ہیں ،مالی استحکام نہیں ، لفظوں میں جان نہیں۔ عشق فرمودہٴ قاصد سے سبک گام عمل ہے نہ حسن میں شوخی اور شرارت کی دلربائی ہے ، غزنوی میں وہ پہلی سی تڑپ ہے نہ ایاز کی زلف و کاکل میں وہ پہلا سا خم ہے ۔


 ترقی پر ترقی ہے ، سہولت پر سہولت ہے ، کتب خانے ہیں ،جدید پریس ہیں،جہاں ہرروزسیکڑوں کہانیاں بڑے طمطراق سے چھپتی ہیں ،مگر چند روزمیں مٹ جاتی ہیں ، پھر چھپتی ہیں ،پھر مٹ جاتی ہیں۔ عجب دور آیا ہے کہ شبانہ روز کی’ تحقیقات ، تخلیقات، تدوینات ،ترتیبات،تالیفات سے تخلیصات تک علم وفن کے سُچے موتی فٹ پاتھوں پر نیلام ہورہے ہیں ۔

تاہم جوتوں کی فروخت کے لیے شیشے کی دکانیں زیرِ استعمال ہیں ۔ٹرکوں کے پیچھے اقوالِ زریں رقم ہیں؛’نصیب اپنا اپنا ،کھیڈ مقدراں دی‘ ۔۔۔مطالعہ کاروں کی نگاہ ِ تجسس حیران ہے کہانیوں کی وہ دل نشیں پذیرائی کہاں گئی ۔ عاشقِ زار کے جذبات ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘ میں بے بسی کس نے پیدا کردی۔ 
فی زمانہ سیف الملوک ، شاہ بہرام ، سوہنی مہینوال ، ہیر رانجھا ، لیلیٰ مجنوں ، الف لیلہ، داستان امیر حمزہ، قصص المحسنین ، قصص الانبیا، باغ و بہار ، شاہ نامہ اسلام وغیرہ ایسی نئی کہانیاں تخلیق اور امر کیوں نہیں ہورہیں ۔

الموٴطا، صحاحِ ستہ ،کشف المحجوب، بہارِ شریعت، فتاویٰ رضویہ ، تفسیر ابنِ کثیر، سیرة النبی جیسا مستنداور گراں بہا علمی ذخیرہ تخلیق کیوں نہیں ہوتا ۔گلستاں بوستاں ،ہشت بہشت ، مثنوی معنوی، دیوانِ حافظ ، دیوانِ غالب ، مسدسِ حالی ، آبِ حیات ، نکات الشعرا، پنجاب میں اُردو ، مرا ة العروس ، امراوٴجان ادا ، اسرارِ خودی ، بانگِ درا ، خدا کی بستی ،آگ کا دریا ،راجہ گدھ ،جہانِ دانش ، شہاب نامہ، مضامینِ پطرس ، چراغ تلے ، بجنگ آمد ، اردوکی آخری کتاب ایسی سدا بہار کہانیوں کے کہانی کار کہاں کھوگئے ۔

 دنیانے اپنا چہرہ کیا بدلا ، پریس بدل گئے ، خیال بدل گئے ،سوچ بدل گئی، سوچنے کے انداز بدل گئے ، انسان بدل گئے ، دل بدل گئے ،مزاج بدل گئے ،کل اور آج بدل گئے، رشتوں کی سانجھ اور سماج بدل گئے ،حکومتیں اور راج بدل گئے ، معاشرے اور سامراج بدل گئے ۔ کل کے بادشاہ آج کے قیدی ، کل کے فقیر آج کے بادشاہ ،وہ جسے چاہے عزت دے ،جسے چاہے ذلیل و رسوا کردے ۔

کوئی نظر بند ،کوئی اشتہاری ، کوئی عمر قید ،کوئی سزائے موت کے پھندے کا منتظر ،جیسی کرنی ویسی بھرنی ،ادلے کا بدلہ ، کر بھلا ہو بھلا ، خیر خیال اپنا اپنا ،سیانے کہتے ہیں پاک رہو بے باک رہو ۔دامن پاک ہے تو ڈر کس بات کا ، جو بوئے وہ کاٹے گا ،یہ فطرت کا تقاضا ہے ۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ۔کوئی کسی کو رلاتا ہے تو اسے خود بھی رونا چاہیے ،یہی تو مکافات عمل ہے ،جو اسی جہاں سے شروع ہوجاتی ہے ،اور ابد تک جاتی ہے ۔

ولی ٴ کامل میاں محمد صدیق لالی نے فرمایا تھا ؛
خودی مول نہ بھاوے رب نوں 
اوتھے جھکنا ای درکار اے 
سیاسی ہلچل اور صحافتی تبصروں سے قطع نظرصورت حال کیا بے حال ہوئی ،ہر قدم پر ایک عجب کہانی چھپی کہ دنیا کے نین نقش ہی بدل گئے، خون سفید ہوئے ، آنکھیں پتھرا گئیں ، احساس خاک میں جا ملے ، کل تک ا نسان کے نام سے پکارے جانے والے کتنے احمق انسانیت کے بلند برج سے منھ کے بل ایسے گرے کہ جانوروں سے بدتر ہوکر رہ گئے ۔

ہر شخص ہزار داستاں ہوا، خانہ ٴدل ویراں ہوا ، کبھی دل میں، جوبسا کرتا تھا ، آج وہی دشمنِ جاں ہوا ، بھائی بھائی کا دشمن ، باپ بیٹے کا قاتل ، بیٹا باپ کی جان کے دَرپے ، ماں، بیٹی ، ساس ،بہو کے دنگل، انسانوں کی بستییاں یا بھیڑیوں کے جنگل ،ہر موڑ پر برپا درندگی کے منگل ، کوئی سَنگل نہیں کسی سرکش کو باندھنے کے لیے ، کوئی سگنل نہیں کسی باغی کو روکنے کے لیے ،شاید یہ بھی ایک کہانی ہے، جو چھپ رہی ہے ،ایک آگ ہے،جو تپ رہی ہے ، جلا کر راکھ کردے گی سب کو ، شاید راکھ میں دبی کوئی کہانی کسی کے ہاتھ آجائے،نشر ہوجائے اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان ِ عبرت بن جائے ۔

 لگتا ہے کوئی ایسی کہانی اشاعت پذیر ہے ، دیکھیے کب مکمل ہو ، شاید انسان کے خاتمے یا انسانیت کے مٹ جانے پر ،کسی ویرانے میں ،کسی ہو کے عالم میں سستے داموں بِکا کرے ۔ہُو کاعالم اور وحشتوں کا کوئی جہاں اس کہانی کا خریدار بنے ۔لکھی جارہی ہے ایک کہانی ،شاید دنیا کی آخری کہانی، صدیوں کی مسافت طے ہوچکی ، مدتوں کا سفر ابھی باقی ہے ، شاید دنیا کی ساری کہانیاں کسی’ وہیل کہانی‘ کے پیٹ میں بھر جائیں ، اس میں ضم ہوجائیں ،پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں،کچھ نہ کچھ تو ہوکررہے گا ۔

کسی سیانے کا کیا خوب کہنا ہے کہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی ، کہانی اچھی ہو یا بری ، یہ اپنے لکھنے والے کا مافی الضمیر ہوتی ہے ، سوال امڈ رہا ہے کہ کیا ہم اپنا مافی الضمیر لکھ رہے ہیں ،کیا آنے والی نسلیں اس سے ہمارے ضمیر کا اندازہ لگا یا کریں گی ؟ نسلِ نو ہم سے اختلاف یا انحراف کرے گی یا ہماری طرح کی کوئی اور اندوہ ناک کہانی لکھے گی؟
کیا اضطراب کا سورج نکلتا اور ڈھلتا رہے گا،جس کی پشیمان اور دھندلی کرنوں میں ایسی ہی کہانیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا ، کیا ہمارے مافی الضمیر کے پریس میں مزدوروں ، بے بسوں ، بیواوٴں اور یتیموں کے حقوق کی پامالی کا نت نیا قصہ چھپتا رہے گا ، کیا ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، ظلم ،لوٹ مار ، سٹریٹ کرائم ، ڈاکازنی ، قتل و غارت سے تاریخ کا چہرہ مسخ ہوتا رہے گا ، کیا ہر نئی شام کسی کونے خدرے میں لگا کوئی بے بس انصاف کے انتظار میں سسکتا رہے گا۔

کیا عدالتوں کے فیصلوں پر تعجب کے حجاب لہراتے رہیں گے ، کیاظلم کی داستانیں لکھی جاتی رہیں گی ، سفاکی اور بربریت کے ناول چھپتے رہیں ، انسانیت کا مذاق اڑانے والے افسانوں کے پرنٹ نکلتے رہیں گے؟ کیا کالے کرتوتوں سے بھری تاریخ رقم ہوتی رہے گی ،کیا دنیا سے انسانیت کے اُٹھ جانے تک دنیا خوابِ خرگوش کے کمبل میں سوتی رہے گی ،کیا کوئی روشن ضمیر مسیحا ظلمتوں کے موٴرخ کاقلم نہیں چھینے گا۔

بقول غالب 
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک 
کہانی بہر حال چھپ رہی ہے ۔ اظہار کے لیے ہزاروں راستے اور واسطے پیدا ہوچکے ہیں ۔’کبھی کتابوں میں پھول رکھنے ‘ والے قصے پاک ہوئے ۔آج میڈیا کا دور ہے، ٹیلی ویژن پر چلتی پھرتی، ہنستی ناچتی، کھلکھاتی چہچہاتی مورتیاں ،اخبارمیں چھپتے کالم، تبصرے اورخبریں، انٹرنیٹ کی رنگا رنگی میں ڈوبی آنکھیں اور آنکھوں میں ہچکولے کھاتی’ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘۔

ڈش انٹینا پر اترتا تفریح کا من و سلویٰ ،کیبل کنکشن سے گھر بیٹھے خوشیوں کی برسات ، سینکڑوں سرچ انجن گویا کوئی مرشدِ کامل چودہ طبق روشن کردے، ٹویٹر سے لگے ایسا چہچہا کہ دنیا کے ہر کونے میں گونجے ٹھاہ کر کے اور ایک پل میں دنیا کے سارے مسئلے حل کر دے ۔ وٹس ایپ رابطے ؛ہر نئی صبح نئی تصویریار،’جو ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘۔ کیا شاندار زرمبادلہ ،’کم خرچ بالا نشیں‘، ’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ ۔

فیس بک؛ استفسارِ مزاجِ یار سے شادی خانہ آبادی کی سہولت تک نت نئی کہانی کی اشاعت ۔
ٹک ٹاک؛ کیا عجب شے بنائی ہے بنانے والے نے ، مردو زن کی تفریق سے بالا ،جس کے جو جی میں آئے چھاپے ،جس کے جی میں جو آئے کرے ، اچھلے کودے ، ڈنٹر پیلے ، کیا ضرورت ہر مر مر کے جیے جانے کی، زندگی کی کوئی کہانی تو ہونی چاہیے چاہے چند سیکنڈ ہی کی کیوں نہ ہو۔

شرمانے سے کیا حاصل ۔
یوٹیوب؛ دنیا کے بلند بانگ دعووٴں کا مرکز ، واعظوں ، عالموں ،ظالموں،بالموں کا مرکز، تقریروں، تحریروں، تصویروں، خوابوں اور سپنوں کی تعبیروں کا مرکز حتی ٰ کہ ہر مزاج کا مال دو دوروپے کیا معنی ، بس ہلکی سی کلک کیجیے ، اپنی اصلاح کیجیے یا ماتھے پہ کلنک کا ٹیکا سجا لیجیے ، جو جی میں آئے کیجیے،کس کی مجال ہے کہ آپ کے مطالعہ کے کمرے میں بشمول ماں باپ بھی بغیر اجازت قدم رکھیں۔

 محنت ، مشقت، چرخے اور ترنجن کے دَور گئے ۔ دنیا دل والوں کی ہے ، فیشن کیجیے اور خوش رہیے ۔پرانی کہانیوں میں سوائے پند و نصائح کے رکھا ہی کیا ہے ۔ نیا زمانہ ہے، نئے صبح شام کی ضرورت ہے ۔ ’ کوئی مرتا ہے تو مرے، کوئی جلتا ہے توجلے ،رانجھن کہنا ہے، ڈھولن کہنا ہے ‘ کا راگ الاپتے جائیے ۔ دنیا کی میراتھن دوڑ میں بھاگتے جائیے ۔کوئی منفرد کہانی لکھیے ، جسے دیکھ کر دنیا کی آنکھیں کھل جائیں۔

محبت، نصیحت،رومانس اور دل لگی سے بھرپور شاہ کار ’ سوشل میڈیا ‘ ایک مفید اور شدید پلیٹ فارم ہے ،جہاں ہزاروں لاکھوں جدید کہانی کاروں کے لامتناہی چوکس دستے اور جمگھٹے جلوہ افروزہیں ،جو کہانیاں اچھالنے میں یدِ طولیٰ، دماغِ طولیٰ اور زبانِ طولیٰ رکھتے ہیں۔انھیں کہانی کے پس وپیش سے کچھ واسطہ نہیں ۔ خدا واسطے کے بیر کی طرح اس پلیٹ فارم پر فی سبیل اللہ تبصروں اور تجزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ جاری ہے۔

 
مایوسی کے دن گئے ، جا بجا پریس لگے ہیں ، کہانیاں چھپ رہیں ہیں ، کہانیاں بن رہی ہیں ، کہانیاں تڑپ رہی ہیں، کہانیاں سسک رہی ہیں ، کہانیاں ہنس رہیں ، کہا نیاں ناچ رہی ہیں ۔کون کہتا ہے کہانی کا دور ختم ہوگیا ،جب تک خدا کی کائنات قائم ہے ، کہانیاں بنتی رہیں گی ، چھپتی رہیں گی، کہانیاں روتی رہیں گی ، ہنستی رہیں گی ۔ مگریاد رہے! ہر کہانی کا کوئی پس منظر اورپیش منظر ہوتا ہے ، بس ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے ہر ہنستی کہانی کے پیچھے کوئی زندگی مسکرا ر رہی ہوگی ،کوئی زندگی رو رہی ہوگی۔

اسی طرح ہر روتی کہانی کے پیچھے کوئی زندگی قہقہے لگاتی نظر آئے گی اورکوئی سسکتی ،تڑپتی اورروتی دکھائی دے گی ۔بقول شولت علی فانی
اک معمَّا ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا 
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
یاد رکھیے !ایک عظیم طاقت ہے ،جسے رب ذوالجلال ،رحیم و رحمن اورقہار و ستار کہتے ہیں ، اگرہماری دنیا میں ہنستی مسکراتی کہانیاں چھپتی رہیں گی تورحیم و رحمن مسکراہٹیں بانٹنے والوں پراپنی بے کراں رحمتوں اور لازوال خوشیوں کی برسات برساتا رہے گالیکن اگر روتی اور سسکتی کہانیاں لکھی جاتی رہیں ، تو اس ذات سے بڑی گرفت اور پکڑ کسی کی نہیں ، ایسی کہانیوں کا پیش منظر اس کے قہر کے روپ میں نازل ہوگا، جس کا جواب نہیں دیا جاسکے گا ۔

اس کے قہرکے پس منظر میں مظلوموں کی آہوں اور بے بسوں کی سسکیوں بھری کہانیاں کارفرماہوا کرتی ہیں ، جب اس کا قہربرستا ہے توپھر اس کے سامنے شداد ، فرعون ، قارون اورنمرود جیسے دنیا کے یزیدوں اور جھوٹے خدا ؤں کا نام مٹ جایا کرتا ہے ۔ مت بھولیے ! ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی پس منظر اور پیش منظر ہوتا ہے۔
 اللہ ہم سب کا حامی و مددگار ہو !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :