ظلم کرتے ہوئے وہ شخص لرزتا ہی نہیں

جمعرات 2 مئی 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

وہ جو بچپنے کے گلاب لمحے اور مخملی سمے تھے ان میں اچانک ہی سفاک لوگ زہر گھول جاتے ہیں۔ کتنی ہی معصوم جانیں المیوں اور سانحوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔ دلوں میں کہرام مچا دینے والے جرائم پر سکوت اور سرد مہری نے معصوم کلیوں کے لبوں پر تبسم کا سارا بھرم توڑ سا دیا ہے۔ جبر ،زور آور جبکہ مجبور، نحیف و ناتواں ہو چکے ہیں۔ حویلیاں کی تین سالہ فریال کی لاش، اس کے گال پر نشانات اور اس کے کٹے پھٹے خشک ہونٹ کسی بھیانک تہذیب کی طرف ہمیں دھکیل رہے ہیں۔

نوشہرہ کی 9 سالہ مناہل کو زیادتی کے بعد قتل اور لاش کو قبرستان میں پھینک دینا کیا اس بات کا غماز نہیں کہ جنسیت کا طوق گلے میں پہن لینے والوں کے احتساب میں کوئی بہت بڑا سقم اور کجی موجود ہے۔ لوہاری گیٹ کے علاقے میں 9 سالہ عائشہ کی لاش پر تشدد کے گیارہ نشانات چیخ چیخ کر ہمیں جھنجوڑ رہے ہیں کہ زینب کے قاتل عمران کو پھانسی پر لٹکانے کے باوجود بھی معصوم کلیوں پر جنسی تشدد میں اضافہ، کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ سزا کا عمل اور طریقہ کار پھسپھسا اور بودا ہے۔

(جاری ہے)

اخلاقی گراوٹ بلکہ غلاظت کا تعفن دیکھتے جائیے کہ فیصل آباد میں ایک دودھ فروش محمد سلیم نے اپنے بھانجے کے ساتھ مل کر سات سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا ۔ گزشتہ ہفتے نارووال میں ایک 11 سالہ بچی زہرہ کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر کے کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ کورنگی کراچی میں مسیحاوٴں کے لبادے میں چھپے ڈاکٹر ایاز اور ڈسپنسر شاہ زیب جیسے جنسی درندوں کو دیکھ لیجیے جنہوں نے مریضہ کے ساتھ زیادتی کے بعد زہر کا انجیکشن لگا کر قتل کر دیا۔


لوگو ! اب زمینیں نہیں پھٹتیں ، اب آسمان بھی نہیں گرتے اب تو بھیانک جرائم پر ہمارے دل بھی نہیں لرزتے ، اب تو الم کی فصیلوں پر ابابیلیں بھی کنکریاں نہیں برساتیں ، دشت حیات میں بد عملی کی حبس نے ہمارے معاشرتی رویوں کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔چند ہفتے قبل ہی کی تو بات ہے پشاور میں ایک نجی سکول کے پرنسپل عطاء اللہ نے اپنے سکول کی 80 خواتین جن میں کم عمر بچیاں بھی شامل ہیں کے ساتھ جنسی درندگی کا ارتکاب کیا۔

بی بی سی کے مطابق عطاء اللہ کے قبضے سے خواتین اور طالبات کی کئی برہنہ ویڈیوز کے علاوہ جنسی ادویات، منشیات، پستول اور کیمرہ بھی برآمد ہوا۔ پشاور کی ایک عدالت نے اسے 105 سال قید اور 40 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کا انطباق محض ایک ہی سکول پر نہ کیا جائے۔ آپ پھرول اور ٹٹول کر دیکھ لیں ایسی دل سوز کتھائیں بہت سے نجی سکولوں سے وابستہ ملیں گی۔


آپ سرائے عالمگیر کے ایک جعلی پیر کے کرتوت اور لچھن دیکھ کر غور کیجیے کہ جنسی ہوس کس کس بھیانک بہروپ میں موجود ہے۔ جعلی پیر سائیں عابد نے دو کمسن بچیوں کو چلہ کاٹنے کے بہانے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ زیادتی کے بعد بچیوں نے اپنے والدین کو بتایا کہ پیر چلہ نہیں کاٹتا بلکہ زیادتی کرتا ہے۔ وہ بچیوں کو خوف زدہ کرتا ہے کہ اگر کسی کو بتایا تو تمہارے گھر والوں کو کالا جادو کر کے جلا دوں گا۔

سائیں عابد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے تسلیم کیا کہ وہ 30 سے زائد بچیوں کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ افکار میں بدعقیدگی کے انبار لگ جائیں تو پھر والدین المناک حماقتوں میں گرفتار ہو کر اپنی عزت اور ناموس تک کو تار تار کروا بیٹھتے ہیں۔ مذہب کے نام پر یہ جنسی درندے پیروں فقیروں کے لبادے میں فریب کے اتنے غلیظ نشیب میں گر چکے ہیں کہ معصوم بچیوں تک کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔

کتنے ہی والدین ایسے بھی تو ہیں جو بدنامی کے ڈر سے اپنے دل میں لٹی پٹی عصمتوں کے بوجھ لیے دم سادھے پھرتے ہیں کہ رسوائی کے آزار کا مقابلہ کرنے کی سکت اور تاب ان میں ہے ہی نہیں۔
ظلم کرتے ہوئے وہ شخص لرزتا ہی نہیں
جیسے قہار کے معنی وہ سمجھتا ہی نہیں
اس قدر سرد مزاجی ہے مسلط ہم پر
کوئی بھی بات ہو اب خون ابلتا ہی نہیں
جب قصور کی بے قصور ننھی کلی زینب کا سانحہ رونما ہوا تھا تب ڈارک ویب سائٹس کے متعلق طرح طرح کے انکشافات ہوئے تھے۔

تب معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنانے والے کئی گروہوں کا بھانڈا پھوڑا گیا تھا۔ تب ظلم و جبر کے اس گھناؤنے فعل کے عقب میں بہت ہی طاقتور لوگوں کے نقب کے متعلق خبریں دی گئی تھیں مگر عمران اکیلا ہی پھانسی پر لٹک کر دفن ہو گیا اس کے پس پردہ اور اس کے معاون کسی ایک شخص یا گروہ پر بھی آج تک ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔بچے تو آنگنوں کی زینت ہوا کرتے ہیں۔

گھر کے سارے منظر میں بچیاں مشک و عنبر ہوتی ہیں، گھروں میں قہقہوں کے جھرنے اور مسکراہٹوں کی آبشاریں بچوں ہی کے دم سے ہوتی ہیں۔
فقط مال و زر و دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
مگر آج بچوں کے والدین خوف و ہراس اوڑھ کر سوتے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کے معاملے میں کتنے ہی تحفظات کے شکار ہیں۔

قصور کے مقامات اور مضافات کے مکینوں کے سینوں میں تو کتنے ہی دھڑ کے لگے رہتے ہوں مگر جنسی چھلاووں پر گردش لیل و نہار کا بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ تبدیلی کا کوئی بھی سریلا راگ ان جنسی
آسیبوں کو سیاہ کاریوں سے روکنے میں ناکام و نامراد دکھائی دیتا ہے۔ شاید معمولی اور سطحی تبدیلیوں سے ان بلاؤں کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
تہذیب کو فرسودہ دلائل سے نکالو
مرتے ہوئے لوگوں کو مسائل سے نکالو
قانون کو نافذ کرو ہر ایک گلی پر
تم قاتلوں کو اپنے قبائل سے نکالو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :