یہ سال بھی آخر بیت گیا

پیر 30 دسمبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

یہ سال بھی کچھ لوگوں کی زندگی میں رعنائی اور زیبائی تو کسی کی زیست میں تلخ اور جاں سوز سانحات گھول کر رخصت ہو چلا۔کتنے ہی لوگ جو ہماری زندگیوں کا ایسا خاصّہ اور جھومر تھے کہ جن کے بغیر خوشیوں کے تمام رنگ مدھم اور پھیکے محسوس ہوتے تھے، ہمیں سسکتا تڑپتا چھوڑ کر یوں رخصت ہو گئے کہ ہم اُنھیں ساری زندگی بھی کھوجتے رہیں تب بھی اُن کی ایک جھلک تک دکھائی نہ دے سکے گی۔


10 نومبر 2019 کی صبح اپنے دوست سیّد افتخار شاہ کی اچانک وفات کی خبر سُنی تو جسم وجاں لرز کر رہ گئے کہ اچانک آنے والی افتاد انسان کو یک دم ہی نڈھال اور ادھ موا کر ڈالتی ہے۔2 نومبر 2019 کو میرے محترم المکرّم استاذ حاجی مجیب الرحمان صاحب، جن سے میں نے قرآنِ مجید پڑھا تھا اچانک ہی اپنے اللہ سے جا ملے۔

(جاری ہے)

آپ بھی اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اوراقِ پارینہ کو الٹ پلٹ کے دیکھ لیجیے۔

ہم کتنے ہی پیاروں کو اپنے ہاتھوں قبروں میں دفن کر چکے۔گردشِ لیل ونہار ہمارے کتنے ہی محبت مآب لوگوں کو زیرِ خاک دفن کر چکی۔ 12 مئی 2013 کی وہ الم ناک یادیں مجھے آج بھی اشک بار کر ڈالتی ہیں، جب میرے سب سے پیارے دوست خالد وقار کو دل کا دورہ پڑا تھا۔سسکیوں اور ہچکیوں کی وہ بازگشت مجھے کبھی بھول ہی نہ پائیں گی جن سے کارڈیالوجی سنٹر بہاول پور کے درودیوار گونج رہے تھے۔

بہتے آنسو، کپکپاتے لب، لرزتے وجود اور گِڑگِڑاتی آواز میں ہر زبان پر دعائیں، التجائیں اور فریادیں تھیں کہ اے اللہ! خالدوقار کو صحت عطا فرما۔زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا خالد وقار پر بے ہوشی کے عالَم میں مزید دو بار دل کے حملے ہوئے۔اُس کی گردن پیچھے کی سمت اٹھی اُس نے آخری سانس لی اور وہ ہمیشہ کے لیے پُرسکون ہو گیا...وارڈ میں موت کا سناٹا چھا گیا۔

ڈاکٹر نے مایوسی کے عالَم میں اپنا ماسک اتارا اور بوجھل قدموں وارڈ سے نکل گیا...وہ لمحات اتنے جاں گسل اور کرب ناک تھے کہ جیسے قیامتِ صغری ہم پر سے گزر گئی ہو۔میری زندگی کا ایک اجلا اور تابندہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا...چاہتوں کی ایک ایسی شمع بجھ گئی کہ جس کا ایک ایک لفظ اخلاص میں گُندھا تھا۔وہ جوانی میں اپنے سات بچوں کو بلکتا، بیوی کو سسکتا، اپنی ماں کو تڑپتا اور دوستوں کے ایک جھرمٹ کو روتا چھوڑ کر رخصت ہو گیا تھا۔

آج اس کی قبر پر کھڑے ہو کر بھی یقین ہی نہیں آتا کہ وہی ہنستا مسکراتا خالد وقار اس قبر میں دفن ہے۔موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جو سورج کی رُوپہلی کرنوں جیسے تابناک چہروں کو چھوڑتی ہے نہ چودھویں کے چاند سا حُسن وجمال رکھنے والوں کو معاف کرتی ہے۔
لیکن ذرا ٹھہریے! چند ثانیوں کے لیے سوچ اور فکر کے اس پہلو پر بھی غور کیجیے کہ بہت جلد ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب ہماری اپنی سانسیں بھی اکھڑ جائیں گی، ہماری نبضیں بھی ڈوبنے لگیں گی، ہماری آنکھیں بھی پتھرا جائیں گی اور موت کا فرشتہ ہماری سانسوں کو بھی سینت لے گا...اور پھر ہمارا دل بھی آخری بار دھڑک کر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا... پھر انھی مساجد میں ہماری نمازِ جنازہ کا اعلان کیا جائے گا۔

ہمیں بھی لکڑی کے تختے پر لٹا کر غسل دیا جائے گا... ہمیں بھی کفن پہنایا جائے گا... ہمیں بھی کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جا کر دفن کر دیا جائے گا۔زندگی کی اَن گنت ساعتیں ہمارے ساتھ گزارنے والے ہمارے اپنے لاڈلے اور چہیتے لوگ ہم پر منوں مٹی ڈال کر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔پھر اندھیری قبر ہو گی، اللہ کا فرشتہ ہو گا اور ہم ہوں گے۔سوچیے پھر کیا بنے گا؟ کون ہمارے کام آئے گا؟ کون ہمارے خوف اور دہشت کو کم کرے گا؟ وہ بھی تو ہمارے ساتھ نہ ہوں گے جو دنیا میں ہمیں جان سے بڑھ کر پیارے تھے۔

بس ہم اکیلے ہوں گے۔
دنیا کی اس عارضی اور مختصر زندگی میں ہم محبتوں کی پرتوں کو کھوجتے، کھولتے اور کھنگالتے معلوم نہیں کن انجان پگڈنڈیوں پر بھٹک اور پھر لڑھک جاتے ہیں۔ہم خواہشوں کے اسیر ٹھہرے، ہم مادیت پسندی کے خوگر جو ہیں، سو ہم اپنی گراں مایہ محبتوں کی ضیا پاشیوں کے حق دار ان لوگوں کو ٹھہرا لیتے ہیں کہ جنھیں بوئے وفا چُھو کر بھی نہیں گزری۔

ہم ایسے لوگوں پر سب کچھ وار دیتے ہیں کہ احسان فراموشی جن کی سرشت اور خُو میں رچی بسی ہوتی ہے۔غوطہ زنِ محبت ظاہری حُسن وجمال سے مرعوب ہو کر ایسے لوگوں پر اپنی متاعِ زیست تک نچھاور کر ڈالتے ہیں کہ جن کی رگوں میں بے حسی اور شریانوں میں بے مروتی دوڑتی پھرتی ہے۔خارزارِ حیات میں کتنی بار یوں ہوتا ہے کہ آپ کسی کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں... آپ اُسے راہوں کے نشیب وفراز اور راستوں کے سنگ ریزوں سے بچنے کا ہنر اور سلیقہ سمجھاتے ہیں اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہی شخص آپ کو لنگڑا سمجھنے لگتا ہے۔

۔
جی ہاں! کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی کوحروف، پھر الفاظ، پھر جملے اور پھر فصاحت وبلاغت کے اصول وقوانین سے روشناس کراتے ہیں اور پھر وہی آپ کو گونگا کہنے لگ جاتا ہے۔آپ اس شخص کی بے مروتی پر کس قدر کُڑھ اور کٹ کر رہ جاتے ہوں گے؟ ممکن ہے آپ نے کسی کی محبت کو وقار، اعتبار اور نکھار دیا ہو اور پھر اُسی نے آپ کی چاہت کی پیٹھ پر تحقیر کے کوڑے برسا دیے ہوں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس کے اسباب اور وجوہ کیا ہیں؟ بات بڑی ہی واشگاف ہے کہ ہم نے محبتوں کے حقیقی حق دار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ثانوی حیثیت دے دی ہے(معاذاللہ) وہ خالقِ ارض وسما کہ جس نے محبتوں کے آبگینے انسان کے دل میں جَڑ دیے، وہ اللہ ربّ العزت جس نے چاہت اور خلوص کے موتی سینوں میں پرو دیے، وہ مالک المک جس نے انسان کے لیے بے پایاں نعمتیں پیدا کیں، وہ اللہ عزّوجل جس نے انسان کو بڑا ہی خوبصورت پیدا کیا، سنو، اے دنیا کے لوگو! سنو، اے محبت کے داعیو! اے انسانوں سے وفاؤں کا صلہ مانگنے والو! اے محبت کے عوض محبت کے طلبگارو! تم کسی کی محبت میں اس قدر اندھے کیوں ہو جاتے ہو کہ اپنے اللہ اور جان سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی بھول جاتے ہو۔

سنو، اے لوگو! محبت کا صلہ اللہ سے بڑھ کر کوئی دے ہی نہیں سکتا۔خود اللہ فرماتے ہیں”جتنا میں خوش کسی بندے پر اس کے فرض ادا کرنے سے ہوتا ہوں، اتنا خوش کسی چیز پر نہیں ہوتا اور بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ چُھوتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے، جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں، وہ مجھے لوگوں میں یاد کرتا ہے، میں اس سے بہتر لوگوں میں اس بندے کو یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھ سے سوال کرے میں اس کے سوال کو سنتا ہوں اور اس کی دعا قبول کرتا ہوں“(بخاری)
سنو، اے مومنو! کیا محبت کا بدلا اس سے بڑھ کر کچھ اور ہو سکتا ہے؟ اور یاد رکھو اللہ وہ واحد ہستی ہے جو ہماری ماں سے بھی ستّر گُنا زیادہ ہم سے محبت کرتی ہے۔

دنیائے ہست وبود میں کوئی اور اتنی محبت کرنے والا ہے تو پیش کرو اور اللہ کی قسم! اللہ کی یہ محبت اُس وقت تک پایہ ء تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی جب تک اُس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے بڑھ کر پیار نہ کیا جائے۔محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی اولاد، اپنے والدین، تمام لوگوں، حتی کہ اپنی جان سے بڑھ کر محبت نہ کرے“ اور اس محبت کا صلہ بہ روزِ قیامت کتنا شان دار ہو گا کہ نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم حوضِ کوثر پر اپنے ہاتھوں سے جام بھر بھر کر پلائیں گے۔

سوچیے! اس سے بڑا سعید بخت اور کون ہو گا؟
اے مَحبت کے امینو! زندگی کے وہ اَن گنت لمحات جو تم نے کسی”سراب“ کے پیچھے لٹا دیے، آنکھوں سے گرنے والے وہ ارمغانِ محبت جو تم نے کسی بے مہر اور بے مروت شخص کے لیے بہا دیے... آؤ! رات کے کسی پہر اس ربّ کریم کی یاد میں ایک موہوم سی سسکی، ایک لطیف سی آہ اور خفیف سے آنسو بہا کر تو دیکھو۔دیکھنا سرُور اور سکون کے گراں مایہ جذبات رگ وپے میں کس طرح سرایت کرتے ہیں۔

اگر ایسا نہ کر سکو تو کبھی خلوت نشیں ہو کر اُن ایمان آفریں لمحات کے متعلق ضرور سوچنا کہ جب ہم بیت اللہ کو پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہماری حالت کیا ہو گی؟ ہم اپنے آنسو کیسے روک پائیں گے؟ ہماری کس قدر ہچکیاں بندھ جائیں گی؟ ہم کس قدر روئیں گے؟ ہم کس قدر گِڑگِڑائیں گے؟ ہم اشکوں کی جھڑی اور دُھند میں اس خالقِ حقیقی سے کیا کچھ مانگتے چلے جائیں گے؟ اس دن تو ہمارے دل میں یہ احساس ضرور ٹھاٹھیں مارے گا کہ ہم آج تک مَحبتوں کے سرابوں اور خرابوں کا ہی تعاقب کرتے رہے۔

ہم چاہتوں کی راہوں میں ہوا کے دوش کسی خزاں رسیدہ زرد پتّے کی طرح بے توقیر ہی بھٹکتے رہے۔آنسو بہتے چلے جائیں گے، دل احساسِ ندامت سے چُور سوچتا چلا جائے گا کہ اصل مَحبت تو اب ملی ہے، درست منزل تو اب دکھائی دی ہے۔اگر ایسا کچھ بھی ہم نے نہ سوچا تو پھر اِس سال کی طرح یہ آنے والا نیا سال بھی بیت جائے گا، بہت جلد یہ زندگی بھی تمام ہو جائے گی اور اگر ہم اللہ کے حضور ایسا دل لے کر حاضر ہوئے کہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے تہی ہوا تو پھر ہم اللہ اور اس کے رسول کو کیا منہ دکھائیں گے؟ سنو، اے وفاؤں کا دم بھرنے والو! لوگوں سے محبت ضرور کرو مگر خدارا اس مَحبت کو اللہ اور اس کے رسول کی مَحبت پر مقدّم تو نہ جانو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :