کورونا اور بے لگام عقیدتیں

ہفتہ 6 جون 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

وہ ایک بہت ہی عجیب منظر تھا۔منحوس عقیدتوں میں لتھڑا ایک مکروہ منظر۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق دہلی میں کورونا کے علاج کے طور پر فروغ دینے کے لیے گائے کا پیشاب پینے کی تقریب منعقد کی گئی ہے۔گائے کا پیشاب ہی نہیں بلکہ بھارت میں آج کل گائے کے گوبر سے صابن تیار کیے جا رہے ہیں۔کاؤپیتھی نامی بھارتی کمپنی ایسا ہینڈ سینیٹائزر بھی آن لائن فروخت کر رہی ہے جو مقامی گائے سے حاصل کردہ”صاف“ کیے گئے پیشاب کا حامل ہے۔


عقیدتیں اگر بے لگام ہو جائیں، عزت اور احترام اگر اپنی حدود کی رسّیاں تڑوا کر آپے سے باہر ہو جائیں اور اگر وابستگیوں کا جنوں بے مہار ہو کر وارفتگیوں کے پنجرے سے نکل بھاگے تو پھر جہالت کے اندھیرے بڑی تیزی سے اگنے لگتے ہیں، پھر انسان کی مَت ماری جاتی ہے۔

(جاری ہے)

اشرف المخلوقات کے اعزاز سے مشرّف اور مزیّن یہ انسان اتنا گِر جاتا ہے کہ پھر وہ ایسے حیوانوں کو بھی ربّ بنا لیتا ہے جنھیں وہ خود گھاس کھلاتا ہے۔

جن مویشیوں کے گلے میں وہ خود رسّی ڈال کر ہانکتا ہے، انھیں ہی الٰہ بنانے میں وہ دیر نہیں لگاتا۔وہ جانور جو پیشاب اور پاخانہ کرنے کے آداب اور قرینوں سے بھی نابلد ہوتے ہیں، ایسے جانور جو سوچنے، سمجھنے اور بات کرنے کی صلاحیتوں سے بھی معذور ہوتے ہیں، شرک کی نجاست میں لتھڑا انسان ان کو پروردگار بنانے لینے میں ذرا تامّل نہیں کرتا۔بھارتی ہندو گائے اور بندر سمیت کروڑوں خداؤں کی پوجا پاٹ کرتا ہے، وہ گائے کے پیشاب کو تبرّک سمجھ کر نوش کرتا ہے، وہ اسے گاؤ ماتا کہتا ہے۔

ہندو گاؤ ماتا کے پیشاب کو مرغوب اور محبوب سمجھتا ہے۔ہمیں اس بات کا قطعاً ملال ہے نہ اس پر کوئی اعتراض۔ہماری بلا سے چاہے ہندو گائے کے پیشاب کے ساتھ ساتھ اس کا گوبر بھی صبح سویرے کسی پلیٹ میں رکھ کر تناول فرما لے۔ظاہر ہے کہ شرک سب سے بڑی نجاست ہے۔اللہ ربّ العزت قرآن مجید میں مشرکوں کو نجس بیان فرماتے ہیں۔جب کوئی بھی انسان شرک کی غلاظت کی لیپاپوتی اپنے عقیدے پر کر لیتا ہے تو پھر کسی بھی جانور کا پاخانہ یا پیشاب پی لینا اس کے لیے چنداں دشوار نہیں ہوا کرتا۔

ہم مسلمان گائے کو ایک حلال جانور سمجھتے ہیں، ہم اس کا گوشت، سری پائے، مغز، دل گردے اور پھیپھڑے بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں، جب گائے کا پیشاب پینے کی وجہ سے ہم کسی بھی ہندو کو قتل نہیں کرتے تو وہ ہمیں اس کا گوشت کھانے کی وجہ سے قتل کیوں کرتے ہیں؟
راجستھان، جموں وکشمیر اور احمد آباد میں گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت فروخت کرنے پر قدغن عائد ہے۔

بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ مقبوضہ وادی میں گائے ذبح کرنے پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے پر بی جے پی کے کارندے، مسلمان انجینئر رشید کو ظلم کا نشانہ بنا چکے ہیں اور بات تو یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ بھارتی ریاست اترپردیش میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں محمد اخلاق نامی مزدور کو پتھر مار مار کر شہید کیا جا چکا ہے۔حالاں کہ اترپردیش کی تحقیقاتی ٹیم یہ بھی ثابت کر چکی تھی کہ وہ گوشت گائے کا نہیں، بکرے کا تھا۔


گائے کا پیشاب بہ رضا ورغبت پینے اور اسے کورونا کا علاج گرداننے والوں کی سوچ اور فکر میں بھی پیشاب ہی کی بدبو شامل ہے۔ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ گائے کا پیشاب پینے سے 70 سے زائد بیماریاں دُور ہوتی ہیں اور انسانوں کی جوانی بھی قائم رہتی ہے اگر یہ بات درست ہے تو 1924 سے لے کر 2018 تک اٹل بہاری واجپائی کی زندگی اور جوانی میں کوئی ارتعاش اور جنبش کیوں نہ پیدا ہوئی کہ وہ کنوارا ہی اگلے جہان پدھار گیا۔

ہندو گائے کے پیشاب کو اپنے تہواروں پر اپنے پاپ (گناہ) جھاڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔پیشاب کے ساتھ عقیدتوں کی کرشمہ سازی ملاحظہ کرتے جایئے کہ جب مسلمانوں کے گھر بچّہ پیدا ہوتا ہے تو بچے کو شہد یا پانی کی گُھٹّی دیتے ہیں جب کہ بہت سے ہندو گائے کا پیشاب بہ طور گُھٹّی پلاتے ہیں۔مانیکا گاندھی کا یہ اعلان سب نے سنا تھا کہ سرکاری دفاتر کی صفائی کے لیے گائے کے پیشاب کو استعمال کیا جائے۔

نیوزی لینڈ میں ایک بھارتی خاتون کو گائے کے پیشاب کی دو بوتلیں رکھنے پر 250 ڈالر جرمانہ بھی کیا جا چکا ہے۔
آپ شرک کی نجاست اور اس کے نجس نتائج پر غور کرتے جایئے کہ بہت سے ہندو صبح سویرے نہانے کے لیے گائے کے پاس چلے جاتے ہیں، جب گائے پیشاب کرتی ہے تو وہ پیشاب کے نیچے سر کر کے جھک جاتے ہیں۔گائے کے پیشاب کے ساتھ ہندو کی جذباتیت اور لگاؤ اتنا زیادہ ہے کہ وہ اسے بوتلوں میں پیک کر کے پورے ملک میں سپلائی کرتے ہیں۔

بھارتی میک اپ کا سامان استعمال کرنے والی خواتین کو بھی چوکنّا ہو جانا چاہیے کہ جب ہندو دواؤں میں گائے کا پیشاب شامل کر سکتا ہے تو میک اپ کے سامان میں کیوں نہیں کرے گا؟ یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی بھی معاشرہ شرک کی نحوست میں مبتلا ہوتا ہے، جب ذہنوں میں شرک اگ آتا ہے تو پھر یہ تعلیم کے ٹیٹوے پر بھی انگوٹھا رکھ لیتا ہے۔سوائے قرآن و حدیث کے باقی کوئی بھی علم شرک سے نہیں بچا سکتا۔

دیکھ لیجیے بھارت میں 677 یونیورسٹیاں موجود ہیں مگر گائے کے پیشاب کی محبت جوں کی توں موجود ہے۔ وہاں 37204 سے زائد کالجز ہیں مگر گائے اور بندر پھر بھی متبرّک ہیں۔آپ حیران رہ جائیں گے کہ بھارت میں سالانہ 14 ہزار افراد پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں مگر گھاس کھانے والی اور رسّی سے بندھی گائے کو پھر بھی خدا سمجھا جاتا ہے۔ان پی ایچ ڈیز میں پانچ ہزار افراد سائنسی مضامین میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں مگر گائے کا پیشاب پینے پر کسی کو اعتراض نہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ جب کوئی معاشرہ دست و پا سے لے کر لب و رخسار تک شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ اس کو دنیا ہی میں جانوروں کا پیشاب پلا کر رسوائی کا سامان بھی تو کردیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :