عجب طرح کی گھٹن ہے ہَوا کے لہجے میں

اتوار 4 اکتوبر 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

کبھی کبھی خلوت میں خوش نما یادوں پر مشتمل بادِ نسیم کا کوئی جھونکا ایسا آتا ہے کہ جو دریچہ ء ماضی کے پٹ وا کر کے عہدِ طفولیت کے اُن درخشندہ شب وروز کی یاد دلا دیتا ہے جو ہمہ قسم کے تفکّرات سے تہی اور کھیل کود سے مزیّن ہوتے تھے۔ہر انسان کی زندگی کے کچھ اوراقِ گذشتہ اتنے انمول اور گراں مایہ ہوتے ہیں کہ ان کا احساس ہی انسان کو مسحورومسرور کر دیتا ہے۔

منوّر رانا نے کیا خوب صورت شعر کہا ہے!
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصّے بھی بہت تھے
کچھ اُس نے بھی بالوں کو کُھلا چھوڑ دیا تھا
مگر کچھ یادیں اور باتیں ایسی بھی ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں کہ انسان جنھیں ناپسند کرتا ہے۔مجھے دو باتوں سے بڑی نفرت ہوتی تھی۔ہمارے محلّے کی کچھ بزرگ خواتین پان کھاتی تھیں، اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک پان دان اُن کی زندگیوں کا جزوِ لاینفک ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

پان دان میں چھالیہ، کتّھا، چُونا اور سروتا رکھنے کے لیے الگ الگ جگہ بنی ہوتی تھی۔اُن خواتین کے معمولات میں شامل تھا کہ وقفے وقفے سے سروتے کے ساتھ چھالیہ کے چند ٹکڑے کاٹتیں، پان کا ایک ٹکڑا توڑتیں، اُس پر چُونا اور کتّھا کا لیپ کرتیں، پھر اس کی تہ کر کے منہ میں رکھ لیتیں۔تھوکنے کے لیے پِیک دان اپنے پاس رکھ لیتیں۔پھر تسلسل کے ساتھ ایک سرخ سیال مادہ منہ سے نکال کر پِیک دان میں اگلتی رہتیں۔

اگر پِیک دان نہ ہوتا تو وہ خواتین پان کھا کر اس طرح تھوکتیں کہ پان کی پِچکاری کے سرخ نشانات فرش پر ثبت ہو جاتے۔مجھے اُن کے اس عمل سے اتنی کوفت ہوتی کہ میں ایسی خواتین کے ہاتھوں کی پکی ہوئی کوئی چیز بھی نہ کھاتا۔دوسری بات یہ کہ میں جب کسی شخص کو نسوار کی گولی بنا کر منہ میں رکھتے، پھر اس کا ذائقہ ختم ہونے پر وہ گولی منہ سے نکال کر پھینک کر اپنے ہاتھوں کو اپنی قمیص سے مسل کر صاف کرتے دیکھتا تب مجھے بڑی گِھن آتی۔

میری یہ کیفیت آج تک جوں کی توں ہے۔
پان آج بھی نہ صرف استعمال ہوتا ہے بلکہ یہ نئی صورتوں میں بھی دستیاب ہے۔گٹکا، سونف سپاری اور مین پوری اس کی جدید شکلیں ہیں۔سکول جانے والے اکثر لڑکے اور لڑکیاں اپنے بیگز میں میٹھی سپاری رکھتے ہیں۔کراچی میں گٹکا کھانا فیشن بن چکا ہے۔اس وقت ملک میں 150 سے زائد اقسام کی میٹھی چھالیہ رنگین اور دیدہ زیب پیکنگ میں دستیاب ہیں۔

گٹکا فروخت کرنے والے اب کروڑوں پتی بن چکے ہیں۔
صرف کراچی میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ تا دو لاکھ ہو چکی ہے، جس کا بنیادی سبب گٹکا، سپاری، نسوار اورسگریٹ ہے۔گلے کے کینسر کے مریضوں میں سے 60 تا 70 فی صد ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو خوب صورت پیکنگ میں ملفوف یہ میٹھا زہر استعمال کرتے ہیں۔یہ شیریں زہر ابتدا میں منہ کے گوشت کو سخت کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے پورا منہ کھولنا اور زبان کو ہونٹوں سے باہر نکالنا دوبھر ہو جاتا ہے۔

پان میں چُونے کا مسلسل استعمال جِلد کو پھاڑ کر چھالا بنا دیتا ہے۔شروعات منہ کے السر سے ہوتی ہیں۔بعد میں یہی السر منہ کے سرطان کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔طبّی ماہرین کہتے ہیں کہ جو چُونا منہ کو کاٹ سکتا ہے کیا وہ پیٹ کے اندر موجود معدے اور آنتوں کو معاف کر دے گا؟ آنتوں کا السر ایک ایسا مرض ہے کہ جس کا فوراً پتا نہیں چلتا مگر جب یہ کینسر میں تبدیل ہوتا ہے تو پھر بھیانک شکل میں کُھل کر سامنے آتا ہے۔

ڈاکٹر غلام حیدر کے مطابق منہ کے کینسر کا شکار ہونے والے مریضوں میں سکول اور کالج کے طلبہ وطالبات کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ بھی شامل ہے۔ گذشتہ سال صرف کراچی کے سرکاری اور بڑے نجی ہسپتالوں میں منہ کے کینسر کے 4780 مریض لائے گئے تھے۔گٹکے کی فیکٹری میں کام کرنے اور پھر گٹکا کھا کر کینسر کی شکار ہو کر مرنے والی 24 سالہ صنوبر کے مطابق گٹکے میں جانوروں کا خشک خون، چھپکلی کا خشک پاؤڈر، چُونا غیر معیاری چھالیہ اور مضرِ صحت کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں۔

کراچی میں ہر ماہ 25 تا 30 افراد منہ کے کینسر کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔حیرت اس بات پر ہے کہ کراچی میں گٹکے پر کئی بار پابندی بھی لگائی جا چکی ہے مگر اس قدغن کو کوئی بھی شخص در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا اور اس کی فروخت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایک سابق پروفیسر کے مطابق 65 فی صد کینسر کے واقعات صرف کراچی میں سامنے آتے ہیں اور ان کی بڑی وجہ پان، گٹکا اور سگریٹ ہے۔

پان اور سپاری میں جو مٹھاس اور رنگ استعمال ہوتا ہے اس کی وجہ سے فنگس نظر نہیں آتا۔اس زہریلی فنگس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ماضی میں منہ کے سرطان میں اکثر وہ افراد مبتلا ہوتے تھے جن کی عمر 50 سال سے زائد ہوتی تھی مگر اب گٹکے اور پان کی کرشمہ سازی ہے کہ 14 اور 15 سال تک کے لڑکے بھی اس مہلک مرض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل جناح ٹرسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر کراچی، لیاقت نیشنل ہسپتال اور سول ہسپتال کی جانب سے جو اعداوشمار جاری کیے گئے تھے اُن کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کینسر کے شکار ہو جاتے ہیں۔یعنی ہر پانچ منٹ میں ایک شخص، ایک گھنٹے میں بارہ، چوبیس گھنٹوں میں دو سو اٹھاسی لوگ اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والی اموات میں 36 فی صد اموات کا سبب سرطان ہے۔اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو 2030 تک یہ تعداد دُگنا ہو جائے گی۔ماہرین کے مطابق 90 فی صد کینسر کی وجہ تمباکو نوشی، پان، سپاری، گٹکا اور نسوار ہے۔ان کو استعمال کرنے والوں کے منہ میں زخم بن جائیں یا منہ کے اندرکا حصّہ سخت ہو جائے تو بہ ہر حال یہ خطرے کی گھنٹی ضرور ہوتی ہے۔ابتدائی سطح پر منہ میں درد نہیں ہوتا۔

درد اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کینسر اعصاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
زندگی، اللہ ربّ العزت کا بہت ہی خوب صورت اور انمول تحفہ ہے۔آئیے! اپنی فکرِ رسا کے دریچے وا کر کے اپنی حیات کے لمحات کی قدر کریں اور ان امراض کے خلاف حکومتی اقدام کا انتظار کیے بنا ہم انفرادی طور پر احتیاط کریں اور اپنی کھانے پینے کی ناروا عادات کو ترک کر کے ان امراض سے چھٹکارا پا لیں۔

زندگی کا کوئی بھی اسلوب یا رنگ ڈھنگ ہو، سنّتِ رسول پر عمل کرنا ہی امراض سے نجات کا باعث ہے۔بس تھوڑا سا غور کر لیں شاید بادِ نسیم کا کوئی ایمان افروز اور نشاط انگیز جھونکا ہماری زیست میں کوئی بہار آفریں موڑ لے آئے اور ہم ان منحوس عادات سے نجات حاصل کر لیں۔اگر میرے یہ شکستہ سے الفاظ پڑھ کر آپ کے اعمال وافعال میں کچھ ایسا ہی ایمان افروز بانکپن دَر آئے تو میرے لیے بھی دُعا ضرور کیجیے گا کہ میں دعاؤں کا سدا محتاج رہتا ہوں۔افتخار عارف کا بہت عمدہ شعر ہے۔
کوئی تو پھول کِھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :