زندگی سے حسِیں محمد ہیں

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

اگر مَحبتیں شعور کے اعلا رنگوں، آگہی کے بالا قرینوں اور ادراک کے ارفع اسلوبوں سے آراستہ ہوں تو ان کا مرکزومحور اللہ اور اس کے رسول کی مقدّس ومطہّر ذات ہی ہوتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کی اس دنیا میں آباد کاری کے بعد دلوں کی نج کاری محبتوں کے جذبوں پر استوار ہوئی ہے لیکن یہ چاہتیں بے مہار اور بے لگام ہرگز نہیں ٹھہرائی گئیں۔

دنیا کے دیگر تمام انسانوں کی چاہتیں بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے تابع اور مطیع کر دی گئی ہیں۔یعنی آپ دنیا کے کسی بھی انسان سے محبت کے دعویدار ہوں اس کی بنیادیں اور طنابیں نبیِ مکرّم کی محبت سے منسلک ہونی ناگزیر ہیں، بہ صورتِ دیگر تو ایسی نام نہاد محبتوں کو حرص وہوس اور مطلب پرستی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

آپ اپنے اردگرد کسی کی یادوں کے جھرمٹ سجا کر بیٹھ جائیں، آپ اپنے حجرہ ء ذات میں کسی کی محبتوں کے چراغ روشن کر کے مسند نشین ہو جائیں مگر یاد رکھیں محبتوں کی یہ شمع، نبیِ مکرّم کی محبت سے روشن ہونی چاہیے، یادوں کا یہ غول اللہ کے رسول کی چاہت سے منوّر ہونا چاہیے کیوں کہ نبی کی محبت سے تہی کوئی بھی جذبہ اور رشتہ کم از کم محبت ہر گز نہیں ہو سکتا۔


دلوں کی صنعت وحرفت کے ماہر اس حقیقت سے خوب آشنا ہیں کہ محبت فقط وہی قابلِ قبول اور لائقِ تکریم ہوتی ہے جو اپنی جان سے بڑھ کر کی جائے۔اپنی جان سے کم محبت کرنا جب دنیا کے کسی بھی عامی شخص کے ہاں مقدّم و مقدّس نہیں تو اللہ اور اس کے رسول کی جناب میں کس طرح معزّزو مکرّم مقام پا سکتی ہے۔یہ بات فقط میرے قلب وذہن کی پیداوار ہرگز نہیں بلکہ یہ پیمانہ اللہ ربّ العزّت نے سورہ الاحزاب میں خود بیان کیا ہے کہ”نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں“ بہ الفاظِ دیگر نبی سے اپنی جانوں سے بڑھ کر پیار کرنا مومنوں پر فرض ہے۔

نبی کے جاں نثار صحابہ نے اس کا عملی مظاہرہ کر کے یہ حقیقت دنیا پر خوب عیاں کر دی کہ نبیِ رحمت کے ساتھ اپنی جانوں سے بڑھ کر محبت کرنا مومنوں کی شان ہے۔خاتم النّبیین کا یہ فرمان صحیح بخاری کتاب الایمان میں موجود ہے کہ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“ عرب کے مشرکین بھی محبتوں کی اس کسوٹی کو خوب پہچانتے تھے، سو وہ اس پیمانے پر صحابہ کرام کے دلوں میں موجود نبیِ مکرّم کی محبتوں کو جانچتے تھے۔

حضرت خبیب سے مشرکین نے سوال کیا کہ کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تمھاری جگہ حضرت محمد کو قتل کر دیا جائے، (معاذاللہ) نبی کی شمعِ محبت کا پروانہ وارفتگی سے گویا ہوا کہ مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میری جان کے بدلے نبیِ مکرّم کے پاؤں مبارک میں کانٹا بھی چبھے۔یہی سوال(اسلام قبول کرنے سے قبل) مشرکین کے سردار ابوسفیان نے حضرت زید بن دثنہ کو قتل کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ محمد اس وقت ہمارے پاس تمھاری جگہ پر ہوں اور ان کی گردن مار دی جائے (معاذاللہ) اور تم اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہو۔

سر پر موت تنی کھڑی تھی، عین موت کے جان لیوا لمحات کے وقت اُن کی زبان سے جواب آیا کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ حضرت محمد اِس وقت یہاں بھی ہوں اور ان کے پاؤں مبارک میں کوئی کانٹا بھی چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو اور میں گھر میں بیٹھا رہوں۔
محبت بینی ہو یا چاہت نشینی، بامِ خیال پر سجی کوئی ندرت ہو یا درونِ دل کوئی نزہت، ان کو ماپنے کا ایک ہی ترازو ہوا کرتا ہے، دلوں میں پیار کی جوت جگانے اور سجانے کے مشّاق خوب جانتے ہیں کہ محبتوں کے کچھ تقاضے بھی ہوا کرتے ہیں اور وہ ترازو اور تقاضا یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کی اطاعتوں میں انتہا کر دے۔

وفا نام ہی اس عمل کا ہے کہ محب اپنے مطلوب کی تابع فرمانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔اللہ ربّ العزّت بھی سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 31 میں اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ”اے نبی! کہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو، اس طرح اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے“ محبتوں کی رفعتوں پر اطاعت کی سیڑھیوں کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے اور نبی کی محبت کی عجیب ہی شان ہے کہ دیگر محبتوں کی طرح اس میں رقیب نہیں ہوتے۔

نبی کو چاہنے والے سب لوگ فقط حبیب ہی ہوتے ہیں۔جس طرح محبت کے بنا اطاعت رائگانی کے سوا کچھ نہیں ہوتی بعینہ اطاعت کے بغیر محبت محض سرگردانی ہی تو ہے۔جذباتی محبت کے ساتھ عملی محبت کا ہونا، اللہ اس کے رسول اور اہل عالَم سب کا تقاضا ہے۔
”سیموئل پیٹی“ نامی فرانس کا ایک استاد اپنے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام کے خاکے دکھاتا ہے وہ مسلمان طلبہ کو یہ بھی کہتا ہے کہ اگر یہ خاکے ان کے لیے ناقابلِ برداشت اور اشتعال انگیز ہیں تو وہ انھیں نہ دیکھیں اور اپنی نظریں پھیر لیں۔

فرانس کا صدر”ایمانویل میکرون“ گستاخانہ خاکوں کو شاہراؤں اور بڑی عمارتوں پر لگانے کا حکم دیتا ہے۔آپ فرانس کی پراڈکٹس کا ضرور بائکاٹ کریں، آپ ہمہ قسم کے میڈیا پر فرانس کے صدر کی مذمت بھی لازمی کریں۔مگر نبی آخرالزّماں کے ساتھ عقیدتوں کا یہ رنگ بھی ضرور اپنائیں کہ آمنہ کے لعل کی اطاعت میں کمال کر دیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ محبتوں میں صرف وہی لوگ کمال کیا کرتے ہیں جو اطاعتوں میں خود کو بے مثال ثابت کر دکھائیں۔


محبتیں، اطاعتوں کے سنگ ہی خوش رنگ اور خوش نما ہوا کرتی ہیں۔میں مانتا ہوں کہ محبتوں کی آماج گاہ دل ہوا کرتے ہیں لیکن اگر کردار وعمل میں اطاعت کے پیمانے چھلک چھلک نہ جائیں تو دلوں میں پنہاں محبت سعیِ لاحاصل ہی تو رہ جاتی ہے۔تسلیم کہ اطاعتوں میں کبھی کبھی کوئی کجی دَر آتی ہے، کہیں کہیں کوئی جھول باقی رہ جاتا ہے اور کسی نہ کسی وقت کوئی لغزش اور غلطی کرداروعمل میں ہو ہی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں ہوا کرتا، کسی کے قول وفعل میں نافرمانیوں کے سیلِ رواں کو کبھی غلطی نہیں کہا جا سکتا۔

میں ایسی اغلاط کو بغاوت ہی کہا کرتا ہوں اور آپ جانیں کہ ایک ہی انسان کے متعلق بغاوت اور محبت کبھی دلوں میں یکجا نہیں ہوا کرتیں۔انسان جس سے محبت کرتا ہے اُس کے لیے ساری دنیا تج دیا کرتا ہے، اُس کے لیے ہر کسی سے عداوت کے سلسلے پال لیتا ہے۔اہلِ ایمان ہی اس محبت کی لذّت سے آشنا ہو سکتے ہیں کہ خاتم النّبیین کے مقابل ساری دنیا کو رَد کیا جا سکتا ہے۔

محبت کی یہ حلاوت عجیب ہی بانکپن رکھتی ہے کہ حضرت محمد کے لیے ساری دنیا کو خیرباد کہ دیا جائے۔محمدِ عربی کی محبت کو پرکھنے اور جانچنے کی کسوٹی فقط یہی ہے کہ اگر ہم ان کے قول وفعل کے سامنے ساری دنیا کی بات کو رَد کر دینے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے ہیں تو جان لیجیے کہ ہمیں حضرت محمد سے واقعی محبت ہے، ورنہ محض زبانی دعووں سے محبتوں کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ایسی محبت عنداللہ ماجور اور مقبول ہے۔

آخر میں اپنی ایک نعتِ رَسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اشعار۔
آفتابِ مبیں محمد ہیں
 ماہ تابِ حسیں محمد ہیں
وہ کسی اور کے نہیں طالب
دل میں جن کے مکیں محمد ہیں
اُسوہ جن کا نجات کا باعث
وہ کوئی اور نہیں، محمد ہیں
دل کو دل سے ملانے آپ آئے
دل رُبا، دل نشیں محمد ہیں
زندگی کیوں نہ ہو نثار اُن پر
زندگی سے حسیں محمد ہیں
روشنی سب انھی سے پاتے ہیں
جن دلوں کے نگیں محمد ہیں
اے خدا! اب حیات# کا مقصد
اور کچھ بھی نہیں، محمد ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :