صحافت اورصحافی

جمعرات 17 جنوری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

ہمارے ملک کے تجربہ کار صحافیوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ملک کے سب سے مقدس لوگ ہے اتنے مقدس کے گائے بھی شرما جائے۔ صحافی اور تجزیہ نگار میں فرق ہوتا ہے۔ تجزیہ نگار کسی بھی خبر پر اپنی رائے دیتا ہے۔ اور یہ تجزیہ خالصتا اُن کی ذاتی رائے پر مبنی ہوتا ہے۔ ادارے یا عوام کا اُس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تجزیہ کار اپنا تجزیہ پیش کرکے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے۔ یہاں تجزیہ نگار اپنی رائے کو فیصلہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ 
ایک وقت تھا اخبارات صرف خبروں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یا پھر کالم نگار کسی خبر پر مختلف پہلوں پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ آج کے کالم نگار اور تجزیہ نگار ذاتی رائے کو عوامی رائے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

زیادہ تر تجزیہ نگار ریٹائرڈ لوگ ہوتے ہیں۔

جو اپنے مشاہدے اور تجربے سے کسی بھی مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔ بہت سے صحافی جو اینکر اور کالم نگار بن چکے ہیں عوام کو گمرہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کے بھی اپنے اپنے مفاد ہوتے ہیں۔ سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹس، ججز اور وکیل تک ان کے دوست ہوتے ہیں۔ اور یہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے مفاد کے نگران ہوتے ہیں۔

بہت سے صحافی ایسے ہیں جنہوں نے سیاسی وفاداریاں نبھائی اور فائدے اُٹھائے۔ کسی کو وزیر اور کسی کو مشیر لگایا گا۔ اور تو اور ان صحافیوں کے بچوں تک کو بھی نوازا گیا۔ کیا ایسے صحافیوں سے ہم غیر جانبداری کی اُمید رکھتے ہیں۔ 
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور صحافی ملکی مفاد کا ضامن ہوتا ہے۔ عوام کے مسائل کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کا ذریعہ صحافی ہی ہوتے ہیں۔

مگر افسوس کی بات ہے یہ جو تجزیہ نگار ہیں اُنہوں نے اپنی الگ ہی دُنیا بنا رکھی ہے۔ یہ ملکوں ملک دوسروں کے خرچے پر جاتے ہیں اور واپسی پر اپنے فناسرز کے گیت گاتے ہیں۔ بہت سے صحافی بیرون ملک جا بسے ہیں مگر پھر بھی پاکستان میں انتشار پھیلانے سے باز نہیں رہتے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ بہت سے صحافی دوسرئے ممالک کے مفاد پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔

ان کا کام ہر وقت حکومت، فوج اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں یہ ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ 
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی کسی صحافی پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو وہ صحافتی آزادی کی آڑ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب کسی سیاستدان پر کرپشن کا کیس بنتا ہے تو اُنہیں جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے۔

اب تو صحافی بھی سیاستدانوں جتنی دولت ، عزت اور شہرت رکھتے ہیں۔ بہت سے غیر ملکی افراد بھی پاکستانی صحافت میں در آئے ہیں۔ صحافی خبر لاتا ہے اور اُس کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ ملکی حالات کس رُخ پر چل رہے ہیں۔ ایک وقت تھا لوگ اپنے کام کروانے کے لیے سیاستدانوں تک رسائی ڈھونڈا کرتے تھے مگر آجکل لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کا کوئی صحافی واقف ہے کہ مجھے فلاں محکمے میں کام ہے۔

 
کچھ عرصہ پہلے تک دیکھا گیا ہے وکلاء برادری میں کچھ ایسے لوگ شامل ہوگئے ہیں جو غنڈہ گردی سے کام لیتے ہیں۔ کبھی ججز اور کبھی عدالتوں پر حملے کرتے ہیں۔ بس یہی نہیں بلکہ پولیس اور عوام سمیت کوئی بھی طبقہ ان سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اسی طرح دیکھنے میں آیا ہے کہ صحافی بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ احتجاج کے نام پر کسی کی بھی پگڑی اُچھالی جارہی ہے۔

آج کل کچھ صحافیوں کی بڑی باتیں ہورہی ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک موجودہ حکومت کے حمایتی تھے اور اب اس کے سخت ناقد بن چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے لوگ ان صحافیوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ جبکہ ابھی تک کسی نے غور نہیں کیا کہ یہ صحافی کیا کہ رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی سمت درست نہیں اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی سے کام کیا جارہا ہے۔

ابھی تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ موجودہ حکومت کے لوگ کرپشن کر رہے ہیں یا ملکی مفاد کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے حکومت سے کچھ غلطیاں ہورہی ہوں۔ مگر ان صحافیوں کی باتوں کو من و عن نہیں مانا جاسکتا ۔ کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی اپنی پارٹی بدل لیتے ہیں۔ اگر اپوزیشن کو لوگ ان کی باتوں کی مثالیں دے رہے ہیں تو کیا جو ان لوگوں نے سابقہ حکمرانوں پر الزامات لگائے کیا وہ سچ تھے۔

کیونکہ یہ لوگ آج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ سابقہ حکمرانوں نے کرپشن کی اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ 
بات بڑی سیدھی ہے کہ صحافت کو صحافت کی طرح ہی لے کر چلنا چاہیے۔ ہمارے ہاں صحافی سیاستدان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔صحافت میں ذاتی اختلافات کو پس پست ڈالنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ آپ عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

ذاتی پسند نا پسند کا اظہار نجی محفلوں میں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے قومی اور میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرنا سراسر زیاتی ہے۔ بڑئے بڑئے صحافی کبھی بھی اپنے چھوٹے ورکروں کے مفاد کے لیے نہیں بولتے۔ جس میڈیا ہاوس کا دل کرتا جس کو چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں بنا بتائے نوکری سے نکال دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ سنئیر صحافی جو صحافت کے علمدار بنے بیٹھے ہیں اپنی زبانوں کو بند رکھتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں صحافت کا کردار بہت اہم ہے ۔ لہذا صحافیوں کو چاہیے کہ عوامی مفاد مدنظر رکھا کریں۔ ملک میں فساد کی سی کوشش بیکار ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :