خلافت سے غلاظت تک کا سفر

پیر 21 ستمبر 2020

Hussain Jan

حُسین جان

نبی کریم ﷺ کے بعد جن صحابہ نے حکومت کی داغ بیل ڈالی اسے خلافت کہتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں میں خلافت کا رواج عام ہوا۔ جب تک خلافت عملی مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی عوام میں اسے مقبولیت حاصل رہی۔ آہستہ آہستہ خلافت کو ختم کردیا گیا۔ خلافت کیوں زوال پذیر ہوئی یہ ایک لمبی بحث ہے۔ یہ ہمارا آج کا موضوع بھی نہیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔

خیر خلافت کے بعد بہت سے طرز سیاست اور حکومت متعارف کروائے گئے۔ ان میں بادشاہت، کیمونیزم، جمہوریت، عوامی جیسے طرز حکومت شامل ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ جمہوری طرز سیاست کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیا۔ جب حکمران اور عوام بے راروی کا شکار ہوجاتے ہیں تو طرز سیاست بدل جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ایک مخصوص طبقہ اس کی مخالفت میں میدان میں آجاتا ہے۔

اگر یہ طبقہ طاقت حاصل کرلے تو ملک میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اور اگر یہ طبقہ کمزور رہے تو ملک پرانی ڈگر پر چلتا ہتا ہے۔ سیاسی رجحان بدلتے بدلتے آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ فرد واحد بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ دیکھنے میں یہ لگ رہا ہے کہ ہم نے ترقی کا سفر طے کیا ہے۔ مگر حقیقت اس کیبرعکس ہے۔ ہم ترقی سے پستی کی طرف گامزن ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ قصور ان مفاد پرستوں کا ہے جنہوں نے سیاست کی بجائے اپنے مفادات کو ترجی دی۔

ہر دور میں ان مفاد پرستوں کو حامی میسر رہے۔ خود پر بکاؤ مال کا لیبل لگانے والے یہ حامی موم کی گڑیا کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ خود میں لچک پیدا کرتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں نظر دوڑائیں تو ہمیں سیاست ایک ایسا گٹر نظر آتا ہے جو گندگی سے لتھڑا پڑا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس گندگی کو صاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو اس گندگی سے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور یہی گندگی ان لوگوں پر پھینک رہے ہیں جو اس کو صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج سیاست کا معیار یہ ہے کہ ایک سنسان سڑک پر کھڑی مجبوعورت محفوظ نہیں۔ سیاستدان بڑئے فخر سے کہتے ہیں کہ جس سڑک پر عورت محفوظ نہیں وہ ہم نے بنائی ہے۔ یہاں چورخود ہی چور چور کا نعرہ بلند کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
بیس تاریخ ہونیہونے والی اے پی سی میں کیا فیصلے ہوتے ہیں اس پر تو بعد میں بات کریں گے۔ مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان میں اے پی سی کا اتنا رجحان کیوں ہے۔

آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو سیاستدانوں کو مل بیٹھنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ اگر یہی سیاستدان ملکی مفاد میں اکٹھے بیٹھیں تو ہوسکتا ہے کچھ بہتر نتائج حاصل ہوجائے ۔ لیکن عوام جانتے ہیں ان سیاستدانوں نے صرف اپنے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ ایسے میں اچھے کی امید رکھنا فضول ہے۔ شیخ رشید صاحب نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ نواز شریف کو اے پی سی سے خطاب کرنے کی اجازت دے دے۔

لیکن کیا انہوں نے یہ سوچا ہے کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔ ایسے شخص کو تقریر کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ وہ اپنی تقریر میں ملکی اداروں کے خلاف زہر اگلیں گے۔ تو کیا اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے والوں کو قومی میڈیا پر تقریر کی اجازت دی جائے۔ اور یہ کتنا عجیب لگے کا کہ ایک مفرور مجرم جو پاکستان کی عدلیہ اور پولیس کو مطلوب ہے سر عام یوں تقریر کررہا ہو۔

کیا یہ ملکی اداروں کا مذاق نہیں ہوگا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری طرف کچھ سیاسی جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہیں اور کچھ جماعتیں احتجاج کا راستہ اپنانا چاہتی ہیں۔ سیاست میں یہ سب کا حق ہوتا ہے۔ مگر کسی مجرم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یوں سر عام تقریریں کرتا پھرے۔
پاکستان کی سیاست میں غلاظت کا آغاز زاتی کردارکشی سے شروع ہوکر ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے تک جاتا ہے۔

بے نظیر کی کردار کشی کی گئی۔ لیکن آج اسی بے نظیر کی اولاد اور پارٹی ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جنہوں نے پے نظیر کے خلاف عالمی سطح پر تحریک چلائی۔ پھر شہباز شریف صاحب کو دیکھ لیں انہوں نے زرداری صاحب کو سڑکوں پر لانا تھا۔ پر آج وہی شہباز شریف زرداری صاحب کے منتظر نظر آتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے زرداری صاحب فرما رہے تھے ن لیگ والے قابل اعتماد نہیں اور آج خود بھی ن لیگ کے ساتھ بیٹھے نظر آئیں گے۔

کیا یہ غلاظت نہیں۔ کیا اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ خلافت میں ایسی چیزیں نہیں تھیں۔ وہاں جو دشمن تھا وہ دشمن تھا جو دوست تھا وہ دوست تھا۔ لیکن پاکستان کی سیاست کو کچھ لوگوں نے غلیظ کردیا ہے۔ اسے غلیظ کرنے میں چاپلوس اور چمچے بھی شامل ہیں۔ انہی کی وجہ سے جگ ہنسائی ہوری ہے۔ جن لوگوں پر مقدمات ہیں وہی تحریک چلانے کے بارئے میں سوچ رہے ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاست میں آنے دیتے ہیں۔ اگر عوام باشعور ہوتی تو ایسے لوگوں کی سیاست میں ایک نا چلنے دیتی۔ مگر یہ بریانی کھانے والوں نے ملک کابیڑہ غرق کردیا ہے۔ ایک پلیٹ کی خاطر اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرئے ، عالمی سطح پر پاکستان کی عزت ہو۔ دنیا ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھے تو ہمیں یہ غلاظت صاف کرنا ہوگی۔ اور اس کے لیے ہمیں کسی دوسرے کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ قوم مل کر یہ کام کرے۔ جو گند اور غلاظت پھیلا رہے ہیں انہیں فورا رد کیا جائے۔ جن کو بات کرنے تک کی تمیز نہیں جو ملکی مفاد کے کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پاکستان کو ایسی غلاظت سے جلد از جلد پاک کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :