"ایرانی انقلاب اور فلسطین سے بیوفائی"

منگل 13 جولائی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

ایران میں رضا شاہ پہلوی کی جابرانہ بادشاہت کا تو سب کو ہی بخوبی علم ہے جس نے کرپشن کا بازار گرم کرکے اور ایرانی تیل کے ذخائر سے نکلنے والے کالے سونے سے ایران کی عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنی اور اپنے احباب کی جیبوں کو گرم رکھا۔ چناچہ رضا شاہ پہلوی نے ایرانی معاشرے کو جس قسم کا نقصان پہنچایا اس سے واضح تھا کہ ایرانی عوام میں جو انقلاب کا لاوا اُبل رہا ہے اسے کسی نا کسی وقت پھٹنا تھا۔

مگر سوال یہ ہے کہ انقلابِ ایران جس سے مسلم دنیا کو ایک نئی منزل پر پہنچایا جاسکتا تھا اور جس کے ذریعے فلسطین کے مسئلے کو بھی حل کیا جاسکتا تھا آخر وہ کیوں ایک مسلکی حکومت بن کر رہ گئی اور اس سے  دور رس نتائج کیوں نا حاصل کیئے جاسکے ؟
ایرانی انقلاب کے اصل خالق کا ٹائٹل اگر کسی کو دیئے جانے کی بات کی جائے تو اگر فلسطینی قوم پرست رہنما یاسر عرفات کا نام لیا جائے تو اس میں مضاحکہ نہیں ہوگا جنہوں نے نجف میں بیٹھے 70 سالہ روح اللہ خمینی پر زور دیا کہ وہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کا تختہ پلٹے جس کی اسرائیل سے گہری دوستی تھی۔

(جاری ہے)

اب ظاہر ہے یاسر عرفات یہ اس لئے بھی کرنا چاہتے تھے تاکہ ایران میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو فلسطین کی آزادی کی مسلح جدو جہد میں ان کو مدد فراہم کرے کیونکہ شام مصر اور اردن تو پہلے ہی 1948, 1956 اور 1967 کی جنگوں کے دوران اسرائیل کے خلاف زور آزمائی کرچکے تھے جس میں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ سعودی عرب بھی رضا شاہ پہلوی کا اتحادی تھا اور ترکی نے تو اوٌل روز سے ہی اسرائیل سے کافی گہرے مراسم قائم کیئے ہوئے تھے۔

پاکستان اگرچہ اس امر میں نہایت ہی اہم ملک تھا مگر اسرائیل سے زیادہ دور ہونے کے باعث یہ بھی موضوع ملک نہیں تھا۔ ایسے میں ایران ایک ایسا ملک تھا جہاں رعایا اپنے بادشاہ سے پہلے ہی تنگ تھی اور یہاں دیگر اسلامی ممالک کے نسبت مذہبی جذبات زیادہ پائے جاتے تھے۔ اب انقلاب تو آگیا اور رضا شاہ کا اقتدار بھی ختم ہوا مگر خمینی نے اقتدار میں آنے کے بعد ایسا رویہ اختیار کیا کہ نا صرف اپنے اسلامی اور کمیونسٹ دوستوں جن میں آیت اللہ ترکانی، شریعت مداری، مصطفیٰ کامران، مہدی بدرگان کے ساتھ بیوفائی کی بلکہ شریعت مداری کے ساتھ تو اتنا غیر انسانی سلوک کیا گیا کہ انہیں مرتے دم تک قید و بند میں رکھا گیا، ان کی بہو کو جسمانی اذیتیں پہنچائی گئی اور شریعت مداری کے انتقال کے بعد علماء کو انکا جنازہ تک ادا کرنے نہیں دیا گیا کیونکہ انکا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے خمینی کی مخالفت میں یہ کہا تھا کہ علماء کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے البتہ جمہوری رہنماؤں کی اخلاقی اور مذہبی رہنمائی کرنی چاہیے۔

دوسری جانب انہوں نے سرخ شیعت کے نعرے لگانے والے کمیونسٹ ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس نے نوجوانوں کا ایک مسلح گروپ حزب اللہ کے نام سے تشکیل دیا تاکہ یہ چُن چُن کے کمیونسٹوں کا خاتمہ کرسکیں۔ تو اب ایسے میں کیسے ممکن تھا کہ خمینی جو انقلابی حکومت کا کریڈٹ اپنے ہم وطن اور ہم مسلک ساتھیوں سے شیئر کرنے سے کترا رہے تھے وہ بھلا کیوں ایک عرب قوم پرست رہنما جو سوشلسٹ خیالات سے متاثر تھے انہیں دیتے ؟
بات اگر صرف خمینی کو انقلاب کا مشورہ دینے کی ہوتی تو بھی اس کا انقلاب کے بعد منہ موڑ لینا قابلِ فہم تھا مگر عرفات نے تو صرف نظریاتی ہی نہیں بلکہ عسکری سطح پر بھی ایرانی انقلابیوں کو لبنان اور اردن میں واقع گوریلا کیمپوں میں رضا شاہ کی فوج سے لڑنے کی مشقیں دیں جو اُس وقت خطے کی طاقتور ترین فوج تصور کی جاتی تھی۔

چنانچہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد یاسر عرفات کو صاف صاف یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب تک آپ اس جنگ کو اسلام اور یہودیت کا مسئلہ بناکر نہیں پیش کروگے تب تک ہم آپ کے ساتھ نہیں لڑیں گے اگرچہ وہ بات اور ہے کہ انہیں تب اسلام اور کمیونزم کا مسئلہ نہیں تھا جب ان کے انقلابی انہی لبرل قوم پرستوں کی کیمپوں میں جاکر گوریلا ٹریننگ لیا کرتے تھے اور یہی لبرل دوست ان کے مترجم بن کر پیرس میں انکا پیغام مغربی صحافیوں تک پہنچاتے تھے۔

بہرحال آج اسی انکار کی صورت میں ہمیں فلسطین میں حماس اور پی ایل او کی شکل میں واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے۔
روح اللہ خمینی ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اگر چاہتے تو بنا کسی دوسرے اسلامی ملک کی مخالفت کے پوری مسلم دنیا کے لیڈر کے طور پر نظر آتے۔ کیونکہ یہ وہ دور تھا کہ تمام مسلمان مسلک سے بالاتر ہوکر خمینی کے اسلامی انقلاب سے شدید متاثر تھے یہاں تک کہ مصر اور شام کی اخوان جماعت کے سنی رہنماؤں نے بھی انہیں پوری مسلم دنیا کا خلیفہ بننے کی پیشکش کی مگر خمینی نے اس کا فائدہ نا ٹھایا بلکہ ایران کو ایک ایسی مسلکی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ جھونک دیا جس سے آج تک پوری مسلم دنیا نا نکل سکی۔

کیونکہ بجائے وہ سعودی شیعہ اکثریتی صوبے قطیف میں شیعہ نوجوانوں کو بادشاہ کے خلاف اکساتے، وہ مسلم دنیا کے تمام شیعہ سنی علماء کو ساتھ ملاکر بھی سعودی بادشاہت کے خلاف گھیرا تنگ کرسکتے تھے۔ مگر اس کے برعکس انہوں نے مسلکی راستہ اپنایا جس کے جواب میں سعودی بادشاہوں نے بھی مسلک کو بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کیا اور صحوة الإسلامية جیسی سخت گیر وہابی تحریکوں کے ذریعے پوری مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کرکے اپنا برانڈ آف اسلام کی تبلیغ و تشہیر کا آغاز کیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا جو پہلے فلسطین کی آزادی کے لئے ایک مٹھی بن کر کھڑی تھی وہ اب اس مسلکی نیابتی جنگ کی ریل گاڑی کے پیچھے لگ گئی اور ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہوئی۔
( نوٹ : یہ آرٹیکل کسی بھی مسلک کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس میں مسلم دنیا میں جاری سیاسی حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :